ٹائم کیپسول
مجھے دبا دو
کہیں زمیں میں
کسی پلازے کی بیسمنٹ میں
کسی عمارت کے قاعدے میں
سمندروں میں بہا دو مجھ کو
کبھی زمان و مکاں کے ملبے سے
کوئی آئندگاں کا باسی
مجھے نکالے گا
مجھ کو سمجھے گا سنگوارہ
قدیم وقتوں کی ڈھیر ساری
عجیب چیزوں کے ساتھ میں بھی پڑا مِلوں گا
میں ایک برتن ہوں
خود میں مدفون
داستانوں، کہانیوں سے بھرا ہُوا ہوں
میں اِس زمیں کی نشانیوں سے بھرا ہُوا ہوں!
Latest posts by نصیر احمد ناصر (see all)
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).