بچے، سکول اور پچھتاوے


یقیناً میری اس تحریر کو پڑھنے والے ہر عمر کے افراد کسی نہ کسی طرح ملک کے تعلیمی اداروں سے وابستہ ہیں۔ کیا کبھی کسی نے کسی بھی سکول کی کینٹین پہ تازہ موسمی پھل فروخت ہوتے یا تازہ پھلوں کا جوس بھی فروخت کے لیے بنتا دیکھا ہے؟ یقیناً نہیں۔ وجہ؟ وجہ صرف یہ ہے کہ پھل ایک آدھ دن کے بعد گل سڑ جاتے ہیں اور کینٹین والوں کا نقصان ہوتا ہے۔ لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ٹافیاں چاکلیٹ لولی پاپ چپس پاپڑ نمکو سلنٹی کوک پیپسی غیر میعاری جوس کے روزانہ استعمال سے ہماری نسل تباہ ہو رہی ہے۔ ہماری نسل گل سڑ رہی ہے۔ ہمارے پھول کلیاں مرجھا رہے ہیں۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔

یقیناً یہ سکول انتظامیہ والے جو کینٹین مافیا سے ایڈوانس کی مد میں اپنا حصہ لے لیتے ہیں۔ پھر کینٹین پہ جو بھی فروخت ہو پرنسپل صاحبان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سکولوں کی کنٹینز کے بارے محکمہ خوراک کی طرف سے واضح پالیسی اور احکامات ہونے کے باوجود کوئی عمل درآمد نظر نہیں آتا۔ اس ناقابل تلافی نقصان کی ذمہ دار صرف سکول انتظامیہ ہی نہیں والدین بھی قوم کے مستقبل کی صحت سے اس کھلواڑ میں برابر کے شریک ہیں۔

کیا کبھی آپ نے اپنے بچوں کو لنچ بکس میں کوئی فروٹ دیا۔ یقیناً نہیں کیوں کہ آپ کو تو سوسائٹی کے ساتھ چلنا ہے۔ جب سکول کا ہر بچہ لنچ میں سینڈوچ بریڈ نوڈلز بیکری کی گندے انڈوں سے تیار کی ہوئی باسی اشیاء لاتا ہے تو آپ کا بچہ کسی سے کیوں پیچھے رہے۔

آئے دن ہم خبروں میں ملاوٹ مافیاء کی کارستانیاں سنتے دیکھتے اور پڑھتے ہیں۔ کس طرح یہ غلیظ لوگ چند روپوں کی خاطر اپنے انسان ہونے کی اور انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں۔ سب جاننے کے باوجود ہم نے کتنی بے رحمی سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہم بچوں کے ناشتے اور لنچ میں اپنے ہاتھوں سے سارا ملاوٹ شدہ مواد شامل کرتے ہیں۔ کیوں کہ ہمیں توسوسائٹی کے ساتھ چلنا ہے۔ اگر ہمارا بچہ بیکری سے خریدا لنچ سکول لے کر نہیں جائے گا تو اس کے کلاس فیلو اس کے استاد کیا کہیں گے۔ حالانکہ وہ آپ کے بچے کے لنچ میں مہنگےلوازمات دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہتے۔

بدقسمتی سے پورا معاشرہ مقابلے کی ایسی ڈگر پہ چل دوڑا ہے کہ ہم نے اپنے ننھے منے نوخیز پھول اور کلیوں سے ان کی معصومیت ان کا بچپن چھین لیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بچہ اس دنیا میں آنکھ کھولتے ہی ہمیں نیوٹن گراہم بیل اور آئن سٹائن سے اپنی شناسائی کی یقین دہانی کروادے۔ گھریلو نوکروں کو ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے انگریزی میں باسٹڈ اور بلڈی کہتے ہمیں بہت بھلے لگنے لگے ہیں۔

اس سے ہمیں یقین ہو جاتا ہے کہ بچہ انگلش سیکھ رہا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے چھوٹی عمر میں سائنسدان بننے کے ساتھ ساتھ رو کر ضد کر کے کھلونے سائیکل مانگنے کی عمر میں اپنی ٹیچروں سے عشق فرمانے لگے ہیں۔ جس کی مثال اسلام آباد میں اپنی ٹیچر کے عشق میں خود کشی کرنے والے اسامہ کی دی جاسکتی ہے۔

پرائیویٹ سکولز کی آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش اپنے اپنے سکول میں بچوں کی تعداد میں اضافے کی حرص اور لالچ بھی بچوں کے گمراہ ہونے بگڑ جانے کی ایک وجہ ہے کیوں کہ اگر سکول انتظامیہ نے کسی غلطی مستی یا برائی کرنے پہ بچے کو ڈانٹ دیا تو بچہ سکول بدل لے گا فیس نہیں آئے گی۔ میں حیران ہوں یہ کیسے قوم کے معمار ہیں۔ وہ وقت گزر چکا جب استاد کو بچے اپنا روحانی باپ سمجھتے تھے استاد کا احترام کرتے تھے۔ اب استاد بھی علم فروخت کرتے ہیں اور شاگرد بھی استاد کو بھاری فیس سے خریدا ہوا ٹیوٹر سمجھنے کے علاوہ دوسرا کوئی مقام نہیں دیتے۔

تعلیمی ادارے بھی بد قسمتی سے کاروباری مراکز کا روپ دھار چکے ہیں۔ والدین بچوں کے درمیان فاصلہ اور والدین کی خودساختہ مصروفیات نے بھی بچوں کومحرومیوں اور احساس کمتری کے ساتھ ساتھ عدم تحفظ کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ والدین نے بچے کو سکول اور معاشرے کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا ہے۔ میرے خیال سے مہنگا سکول اعلیٰ تعلیم یافتہ استاد اور عمدہ لباس صرف یہی لوازمات بچے کی پروش کے لیے کافی نہیں ہیں۔

والدین کا اپنی مصروفیات سے اپنے بچوں کے لیے وقت نکالنا انتہائی ضروری ہے ورنہ بے رحم معاشرہ جیسی چاہے گا ہمارے بچوں کی تربیت کردے گا۔ جس طرح کہتے ہیں کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے بالکل اسی طرح جب اولاد کو والدین کی ضرورت ہے تو والدین کے پاس وقت نہیں اور پھر جب بوڑھاپے میں والدین کو بچوں کی اشد ضرورت ہوگی تو بچے بہت مصروف ہوں گے نتیجةً مغربی روایات پھلیں پھولیں گی اولڈ ایج ہوم بنیں گے۔

گذشتہ روز جب ایک نیوز چینل پہ یہ خبر دیکھی کہ کراچی میں پرائیویٹ سکول کی تیسری منزل سے بچہ گر کر اللہ کو پیارا ہوگیا جسے پولیس خودکشی کا نام دے رہی ہے تو نم آنکھوں سے میں یہ سوچنے پہ مجبور ہو گیا کہ کیا ایک آٹھ دس سال کا بچہ بھی خود کشی جیسی گھناونی حرکت کے بارے سوچ سکتا ہے۔ اس پہ قیامت اس خبر نے ڈھائی کہ مرنے والا معصوم سا بچہ شوگر جیسے موذی مرض میں بھی مبتلاء تھا۔ کیا آٹھ سال کے بچے کو ایسا خطرناک مرض موروثی بیماری تھا یا کینٹین مافیا کی مہربانی؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

لاہور میں بنے ارفع کریم ٹاور کو دیکھ کر دل ڈوب جاتا ہے۔ تعلیمی میدان کے افق پہ ابھرتا روشن اور درخشاں ستارہ حالات کی ستم ظریفی اورحاسدوں کے حسد کی بھینٹ چڑھ گیا پوری آب وتاب سے روشن ہونے سے پہلے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوگیا۔ ارفع کریم کا آئی کیو لیول اس چھوٹی سی عمر میں حیران کن تھا اسے دیکھ کر دنیا حیران تھی۔ ہم اس معصوم بچی کی قابلیت پہ کس منہ سے فخر کرتے ہیں۔ اس نے گڑیا کو سہیلی بنانے کی عمر میں بھاری بھاری کتابوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا اور ہمجولی بنا لیا۔ اپنی صحت کی خرابی کا خیال کیے بغیر دن رات کتابوں سے لفظوں کے موتی چنتے چنتے قوم کی ہونہار بیٹی لقمعہ اجل بن گئی اور اپنے والدین کے ساتھ پوری قوم کو پچھتاوے کے آنسو دے گئی۔

بے شک ارفع کریم کی موت ایک معمہ تھی جسے کئی زاویوں سے دیکھا اور یاد کیا جاتا ہے بہر حال میری ناقص عقل اس کی قابلیت پہ رشک کرنے کی بجائے اس کی موت پہ زیادہ افسردہ ہے۔ ہماری اس نئی نسل میں اٹھارہ بیس سال کے نوعمر بچے کیوں کمر درد گردن کے درد اور ریڑھ کی ہڈی کے امراض کی شکایت کرتے ہیں۔ کہیں بھاری بھر بستے گھنٹوں گردن جھکا کر پڑھنا کھیل کود کے لیے وقت نہ ملنا تو ہماری نسل کی تباہی کے اسباب نہیں۔ غیر معیاری کھانے اور حفظان صحت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے لنچ بکس ہمارے نوخیز پھولوں کے چہروں کی رونق تو نہیں چھین رہے؟ ہمیں سوچنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).