ہم وہ ٹین کے ڈبے ہیں جو بس شور ہی مچاتے رہ جاتے ہیں


مگر اک عمر۔ ۔ ۔
ہم نے زندگی کو زندگی محسوس کرنے کی طلب میں۔
رائیگاں کر لی !

عشق کی داستان آج گلی گلی پھیلی ہوئی ہے، ہر دوسرا انسان اس بیماری میں مبتلا ہے، کچھ سمجھ دارایسے بھی ہیں جو دوسروں کو دیکھ کے عبرت حاصل کرتے ہیں اور یہ ’دوسرے‘ وہ لوگ ہیں جو ’دولت‘ کے عاشق ہوتے ہیں، ایسے چھپا کے رکھتے ہیں جیسے ’سیپ میں موتی‘۔

عشق کی داستان ’صحرا‘ سے بھی شروع ہوتی ہے جب تپتی ریت پہ ایک ’عاشق‘ کو پیٹ کے بل لٹا کے اس پہ کوڑے برسائے جاتے اور وہ فقط یہی کہتا ’اللہ ایک ہے‘، یہ عاشق باکمال حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔

‘صحرا‘ ہی سے ایک اور خونی داستان شروع ہوتی ہے ایسا عشق اور صبر۔ اللہ۔ اللہ۔ عاشق تو پہلے زمانے کے تھے جو ’روح‘ سے عشق کرتے، جسم بے شک نیزے میں پرو دیا جاتا۔ سر تن سے جدا ہے۔ گھوڑے کے سموں سے جسم قیمہ قیمہ ہے۔ مگر اس جاں کنی کے عالم میں بھی عاشق کا کٹا ہوا سر بول اٹھتا ہے۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ یہ عاشق۔ جو اپنوں کے ہاتھوں اجڑے۔ لہولہان ہوئے۔ کون ہیں؟ نواسۂ رسول جناب سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ ہیں!

آج کے دور میں ’ذلیلان عشق‘ تو آپ کو ہر جگہ نظر آئے گا، وہ عشق جو بندے کو ذلیل کرواتا ہے، عزت اچھالتا ہے، ویڈیو بنائی جاتی ہے، آشیانے برباد ہو جاتے ہیں، اور یہ وہ ’کمینے عاشق‘ ہوتے ہیں جو زندگی کو ایک مذاق سمجھ لیتے ہیں۔

کچھ عشق کی داستانیں آپ کو درگاہوں پر بھی دیکھنے کو ملیں گی، یہاں آنے والے وہ ’عاشق باکمال‘ ہوتے ہیں جن کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ ’وہ میرا ہو بس۔ ورنہ مر جائے تو اچھا ہے۔ کم ازکم یہ اطمینان تو رہے گا کہ قبر میں اکیلا ہے، نہ وہ کسی کے پاس ہے اور نہ کوئی اس کے پاس آسکتا ہے۔ اور ان عاشقوں میں ’ماں‘ بھی ہوتی ہے جو ’درگاہ‘ پہ جا کے پیر بابوں سے کہتی ہے ’بہو جائے بھاڑ میں، بس بیٹا میرے قابو میں کر دو، جو مانگو گے دوں گی‘۔ اور اس چکر میں ایمان تو جاتا ہی ہے، ساتھ ہی ساتھ عزت اور دولت بھی گئی بلکہ بعض دفعہ بیٹا بھی تعویزوں کے چکر میں سفر آخرت کی تیاری پکڑ لیتا ہے۔ یہ کیسا عشق ہے جو روح تک کو جھلسا کے رکھ دیتا ہے؟ مگر پھر بھی عشق کی ایسی داستانیں آپ کو ہر گھر میں نظر آئیں گی۔ ’ماشاء اللہ‘۔ یہ داستان ختم ہونے والی بھی نہیں۔

اللہ والوں کی داستان حیات زخم زخم ہوتی ہے، ان کی پاکباز زندگی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ’عشق‘ کا صحیح مفہوم ان لوگوں سے وابستہ ہے جو عشق کرتے ہیں تو ایسے۔ نبھاتے ہیں تو ایسے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں پہ فخر محسوس ہوتا ہے، آخر عشق میں مر مٹنا بھی تو اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے، ’عبد‘ اور ’معبود‘ کا عشق تو روزقیامت نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ عاشق صدیوں بعد ہی وجود میں آتے ہیں۔

کس نے کہا خدا نظر نہیں آتا؟
اک وہی تو نظر آتا ہے۔
جب کوئی نظر نہیں آتا۔

ایک ہرا بھرا انسان ایسے اجڑتا ہے کہ اس کے پاس کچھ باقی نہیں رہتا، مشکل میں ویسے بھی کوئی ساتھ نہیں ہوتا اور جہاں غربت ہو وہاں سگے رشتے بھی دم دبا کے بھاگ جاتے ہیں، ایک عاشق کی آزمائش ہے۔ اللہ اس سے سب کچھ لے لیتا ہے۔ اس کا جسم زخم زخم مگر ’روح‘ توانا ہے جو پکارتی ہے ’اللہ۔ اللہ‘۔

اس کے زخموں کی ناقابل برداشت بدبو کی وجہ سے بستی والوں نے اس کو بستی سے نکال دیا، وہ عاشق دریا کنارے اپنی زندگی گزارنے لگتا ہے۔ اس عالم بے بسی میں اس کی شریک حیات ساتھ ہے۔ وہ پانی سے اس کے زخموں کو دھوتی، صاف کرتی مگر زخم اور زیادہ ہو جاتے۔ اسی تکلیف کے عالم میں وہ عاشق، اللہ کی عبادت سے ہرگز غافل نہ تھا، اسے معلوم تھا کہ ’نماز‘ کسی حال میں معاف نہیں۔ زخموں میں کیڑے پڑگئے، ان کیڑے زدہ زخموں سے اور زیادہ بدبو پھیل گئی مگر وہ عاشق پکارتا ’اللہ۔ اللہ‘۔ کائنات کا ذرہ ذرہ ’محو حیرت‘ ہے، عشق کی ایسی نہ ختم ہونے والی داستان۔ جو زخم زخم ہے۔ اپنوں سے دوری ہے۔ تنہائی ہے۔

یہ عاشق کون تھا؟
حضرت ایوب علیہ السلام تھے! جو عشق کی ہر منزل اور اس منزل میں آنے والی ہر آزمائش کو صبر سے برداشت کیا۔ یہ ثابت کیا کہ عشق میں ایمان کی مضبوطی، ایک خاص درجہ ہے جو خاص لوگوں کو ہی ملتا ہے۔

ہم آج کے دور کے عام انسان۔ نہ دل میں عشق رہا نہ ایمان۔ نہ اللہ سے عشق کرنے کے قابل نہ اس کی مخلوق سے۔ ہم وہ ٹین کے ڈبے ہیں جو بس شور ہی مچاتے رہ جاتے ہیں کہ ہاں! ہم بھی محبت کر سکتے ہیں۔ مگر اس محبت کے آگے جب کوئی آزمائش آئے تو ہم خاک کے کمزور پتلے کہتے ہیں ’اللہ کی مرضی‘۔ ’نصیب نہ تھا‘۔
خود ہی ہیں باعث تکلیف ہم اپنے لئے۔
نہ ہم ہوتے۔
نہ دل ہوتا۔
نہ دل آزاریاں ہوتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).