خان صاحب این آر او نہیں کرے گا


پنجاب یونیورسٹی کے پی سی ڈھابہ میں یونیورسٹی کے طلبا کی کھانے کے ٹیبل پر گپ شپ روز کا معمول ہے۔ ہمیں بھی اس بیٹھک میں کچھ وقت گزارنے کا اتفاق ہوا تو پتہ چلا کہ یہاں گندم کی قیمت سے لے کر ملک کی خارجہ پالیسی تک ہر موضوع پر وہ بحث ہوتی ہے جو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی نہیں ہوتی ہوگی۔

اسی بیٹھک میں ایک مسلم لیگی نے فیسبک کنگالتے ہوے ایک ویڈیو نکالی جو عمران خان کے ماضی میں دیے گئے بیانات بلند وبانگ دعوے اور الیکشن سے پہلے ان کا کہنا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ خود کشی کر لیں ساتھ بیٹھے لیگی نے مولانا فضل الرحمان کے بہاولپور میں کیے جانے والے خطاب سے بندر والی طنز کر دی۔ دونوں مسلم لیگی پاس بیٹھے انصافی ٹائگر کو تنگ کر رہے تھے۔

انصافی کا بلڈ پریشر بڑھتا جا رہا تھا اور جوابا نونیوں کو ڈاکو چور جیسے القابات دے کرفخر سے کہتا کہ خان صاحب جیسے بھی ہیں کم از کم آپ کے لیڈر کیطرح کرپٹ تو نہیں۔ بحث کے دوران میں نے کھانا کھانے میں ہی عافیت سمجھی اور ڈھابے کی بریانی سے محزوز ہورہا تھا کہ لیگی ورکر نے تیکھی نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوے کہا ”کیا پورے پنجاب میں انھیں صرف بزدار ہی وزارت اعلی کے لئے ملا“۔

اس کا طنز تو میں سمجھ گیا تھا لیکن انجان سا بن کر بولا کیوں کیا ہوا۔ ؟ لیگی کے تیور بدلے ہوئے تھے اور وہ شدید غصے میں تھا۔ کہنے لگا کہ ڈالر 137 کا ہوگیا۔ ہیلمٹ کی وجہ سےاب کوئی غریب بائک ہی نہیں چلا رہا، مہنگائی کا تو آپ کو پتا ہے۔ یہ لوگ پتا نہیں کونسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، سب کہہ رہے تھے کہ خان صاحب کینٹینر پر گالیاں دینا آسان ہیں اور حکومت کرنا مشکل اب دیکھا کیا حال کر دیا۔ یہ تو معلوم تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی ہوگا اور پچھلی حکومتیں بھی گئی تھی لیکن ماضی میں اپکے بیانات کی وجہ سے کپتان مشکلات کا شکار ہیں۔

لیگی کی بات میں وزن ہونے کے باوجود میں نے کہا کہ یار ہمیں وقت دینا چاہیے ہو سکتا ہے مستقبل میں آسانیاں پیدا کر لے۔ میری گفتگو جاری ہی تھی کہ لیگی میرے اوپر چڑھ دوڑے کیا مطلب خود ہی تو سو روزہ پلان دیا تھا کہ انتظامی بنیادوں پر جنوبی پنجاب صوبہ قائم کریں گے، آزاد نیب اور غیرسیاسی پولیس کا قیام کریں گے، جوڈیشل ریفارمز پروگرام اور بیوروکریسی میں اصلاحات کریں گے، غیر سیاسی بھرتیاں نہیں ہو گی، سی پیک کو مزید ترقی دیں گے، چوری شدہ دولت کو واپس لانے سمیت 5 برس میں ایک کروڑ ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں گے، ایک ارب درخت لگائیں گے،
یہ سوروزہ پلان کا حصہ ہیں اور بھی بہت کچھ ہیں مگر آج چالیسواں اور حکومت اپنے وعدوں کے برعکس اقدامات کر رہی ہے۔

انصافی یہاں پھر بول پڑا، کپتان کرپٹ طبقے سے کبھی این آر او نہیں کرے گا عوام نے کپتان کو ووٹ دیا ہے بدقسمتی سے خزانہ ان چوروں نے خالی کر دیا ہے، جو نون لیگ کے پانچ سال بھاری ترین قرض لینے پر سوتے رہے وہ آج ہم پر تنقید کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے ملک کو اسی طرح معاشی بحران کا شکار رکھنا ہے یا ملک کو اس سے نکالنا ہے؟ عمران خان کی نیت پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عمران خان ہی ملک کو بحرانوں سے نکالیں گے۔

یہ باتیں سن کر کسی ایک کی سائڈ لینا میرے لئے مشکل مرحلہ تھا اور صرف اتنا ہی کہا کہ ہمیں امید ہے کہ خان صاحب کچھ بہتر کر لیں گے اور ووٹر کے امیدوں کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گے اللہ کرے اپنے سو روزہ پلان کو سو کے بجائے پانچ سال میں ہی اگر پورا کرے تو بڑی بات ہو گی خان صاحب کو اپنے لہجی میں نرمی لانی چاہیے۔ ان کے لہجے سے وزیر اعظم کم اپوزیشن لیڈر زیادہ لگ رہے ہیں۔ حکومت کو پلان دینے چاہیے اور اپوزیشن کو مناسب مشورے تب ہی پاکستان میں خوشحالی آئے گی اور سیاسی توازن برقرار رہے گا۔ حکومتی وزرا کو اپوزیشن پر چیخنے چلانے کی بجائے اپنے متٰعلقہ محکمے پر نظر رکھ کر بہتری لائے۔ جسطرح یہ چالیس دن گزرے ہیں اگر ایک سال تک مزید ایسا ہی سلسلہ چلتا رہا تو عوام بمع اسٹیبلشمنٹ تبدیلی کا بوریا بسترا لپیٹ کر پنجاب کی حکومت دوبارہ ن لیگ کو دے گی اور مڈ ٹرم انتخابات کے لئے لیگی شیر پھر سے میدان میں ہوں گے۔
میری باتیں پوری توجہ سے سنیں لیکن انصافی کی سوئی پھر بھی اسی بات پر اٹکی ہوئی تھی کہ کچھ بھی ہو خان صاحب این آر او نہیں کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).