تبدیلی کیوں نہیں آئی، وعدے کہاں گئے


موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام کو جو سہانے سپنے دکھائے تھے اور جو وعدےکیے تھے، یوں محسوس ہو رہا ہے کہ وہ سب محض اقتدار کے حصول کے لئے ایک سیاسی سٹنٹ تھے، ابتدائی 52 دن میں ہی بظاہر یوں لگتا ہے موجودہ حکمرانوں کے وہ سارے سپنے محض سراب تھے۔ نہ تو لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسی کے لئے حکومت کوئی واضح روڈ میپ دے رہی ہے اور نہ ہی معاشی صورتحال حکومت کے کنٹرول میں نظر آ رہی ہے۔

اقتدار میں آنے سے قبل وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے واضح اعلان کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے بلکہ ان کے الفاظ سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خود کشی کر لیں گے لیکن گزشتہ چند روز سے میڈیا میں مسلسل آرہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکنے والی ہے۔

جناب عمران خان صاحب نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر بارہا غریبوں کو جینے کے حق دینے کی بات کی تھی اور اس وقت کے حکمرانوں کے خوب لتے لئے تھے، انہوں نے بجلی گیس اور پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف بھی تشویش کا اظہار کیا تھا اور وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آکر وہ قیمتیں کم کردیں گے بلکہ وزیر خزانہ اسد عمر کے حوالے سے تو یہ دعویٰ بھی سامنے آیا ہے کہ پٹرول کی قیمت 46 روپے فی لیٹر ہونی چاہیے، لیکن یہ سب باتیں شاید اقتدار سے قبل محض ووٹ لینے کے لیے کی گئی تھیں کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے ان میں سے کوئی ایک بات بھی پوری نہیں کی اور کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا اس کے برعکس مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھی ہیں، حکومت آئی ایم ایف کے پاس قرض لینے جارہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی ہے اور ایک اخباری اطلاع کے مطابق 51 دن میں 2800 ارب روپے کا ملکی معیشت کو نقصان ہوا ہے۔ اوپر سے حکومتی وزراء جس قسم کی زبان اپنی پریس کانفرنسوں میں استعمال کررہے ہیں اس پر بھی تنقید ہورہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پی ٹی آئی کے لئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں، اگرچہ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کارکنان اپنی حکومت کے ہرجائز و ناجائز اقدامات کا بھرپور دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تبدیلی کی یہ ہنڈیا جو 51 دن میں ہی بیچ چوراہے میں پھوٹ گئی ہے اب اس کی بچت مشکل ہی نظر آتی ہے۔

وزیر اعظم یا ان کا کوئی وزیر جب کرپشن کے خلاف بات کرتا ہے تو بھی مختلف حلقوں کی جانب سے یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ وہ اپنے دائیں بائیں کرپٹ لوگوں کو بٹھا کر کرپشن کے خاتمے کے دعوے کرتے ہیں، ہم کیسے یقین کرلیں۔ ٹیکس نیٹ میں اضافے کی باتیں اچھی ہیں اضافہ ہونا چاہیے لیکن سردست ضمنی مالیاتی بل یا بجٹ میں سارا بوجھ غریب عوام پر ہی پڑا ہے۔ وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں کہ صرف 70 ہزار افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں لیکن حقیقت میں پوری پاکستانی قوم بلاواسطہ یا بالواسطہ سوئی سے لے کر واشنگ مشین تک ہر چیز پر ٹیکس ادا کررہی ہے۔ بجلی کے بلوں میں درجنوں ظاہری و پوشیدہ ٹیکس دے رہی ہے۔ نیلم جہلم ڈیم سرچارج اور پی ٹی وی فیس بھی بجلی کے بلوں میں ادا کررہی ہے جبکہ نہ ابھی تک نیلم جہلم ڈیم بنا ہے اور نہ ہی پی ٹی وی لوگوں کو میعاری معلومات اور خبریں فراہم کر رہا ہے۔

حکمرانوں کے لئے میرا مشورہ یہی ہے کہ وہ میچورٹی اختیار کریں، اب وہ اپوزیشن میں نہیں بلکہ اقتدار میں ہیں اور 100 روزہ پلان سے لے کر وہ تمام وعدے اور دعوے جو عوام کے ساتھ آپ نےکیے تھے ان کی تکمیل کے لئے واضح روڈ میپ عوام کے سامنے پیش کریں۔ سود میں اضافے کی بجائے اس میں بتدریج کمی کرتے ہوئے اس کے خاتمے کا منصوبہ بنایا جائے۔

عوام کے فنڈز سے ڈیم نہیں بن سکتا اور نہ ہی آئی ایم ایف ڈوبتی معیشت کو سہارا دے سکتا ہے، ملکی معیشت کی مضبوطی کے لئے کرپشن کا خاتمہ ازحد ضروری ہے اور جب تک قومی صنعتوں کو فروغ نہیں دیا جائے گا اور امپورٹ ایکسپورٹ میں توازن پیدا نہیں کیا جائے گا اس وقت تک زرمبادلہ کے ذخائر اسی طرح کم رہیں گے۔

سب سے بڑی چیز اعتماد ہے۔ حکومت عوام کا اعتماد بحال کرے، جب عوام کو یقین ہوگا کہ ہمارے وسائل ضائع نہیں کیے جا رہے اور انہیں قومی تعمیر و ترقی پر خرچ کیا جا رہا ہے، ان وسائل کو حکمران وی آئی پی پروٹوکول اور اپنی سیکیورٹی پر خرچ نہیں کررہے، حکومت عوامی وسائل عوام پر ہی خرچ کررہی ہے تو ٹیکس نیٹ میں ازخود اضافہ ہو گا۔ اپنی پریس کانفرنسوں میں اوئے وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال ختم کریں۔ سرکاری اداروں میں عام آدمی کی سفارش کے بغیر رسائی ممکن بنائی جائے۔ تھانہ کلچر حقیقتاً تبدیل کیا جائے۔ نیب اور الیکشن کمیشن پاکستان جیسے اداروں کوخودمختاری دی جائے، اور بیوروکریسی کو حقیقی معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).