’ملکی اداروں کے خلاف تقریر: ‘،جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش


سپریم جوڈیشل کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر اُنھیں ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی ہے۔ جمعرات کو سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری کی جانے والی سفارشات کے مطابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کے پانچ ارکان نے متفقہ طور پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کی رائے دی۔

اس کے مطابق ’جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی سنہ2018 کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں خطاب کے دوران ملکی ادارروں کے خلاف جو تقریر کی ہے اس کی وجہ سے وہ ججز کے لیے بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ‘

جسٹس شوکت صدیقی نے اس تقریر کے دوران فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر الزام عائد کیا تھا کہ اس ادارے کے اہلکار عدالتوں میں مداخلت کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے بینچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی نے یہ بھی الزام عائد کیا تھا کہ اُنھیں جان بوجھ کر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اپیلوں کی سماعت کرنے والے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا تھا کیونکہ بقول ان کے آئی ایس آئی کے اہلکاروں کو خطرہ تھا کہ جسٹس شوکت صدیقی سابق وزیراعظم کو ریلیف دیں گے۔

جسٹس شوکت صدیقی کی اس تقریر کے بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا تھا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے الزامات کی نفی کی گئی تھی۔ وزارت دفاع کی طرف سے جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف تحریری طور پر کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا تھا اور سپریم جوڈیشل کونسل نے اس تقریر کا از خود نوٹس لیا تھا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی طرف سے لکھی گئی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی ججز کے بارے میں بنائے گئے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے گئے ہیں اس لیے اُن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے سب سیکشن 6 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی جاتی ہے۔

جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف اس تقریر سے متعلق ریفرنس کی صرف ایک ابتدائی سماعت ہوئی تھی اور یہ سماعت بھی ان کیمرہ تھی جس کے بعد اس ریفرنس کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ سپریم جوڈشیل کونسل کے فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہوتی اور صدر مملکت پر یہ لازم ہے کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کرتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کے احکامات جاری کریں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اگرچہ سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں ہو سکتی لیکن وہ اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لیکر جائیں گے۔ جسٹس شوکت صدیقی ملکی تاریخ کے دوسرے جج ہیں جن کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔

اس سے پہلے سنہ 1973 میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت علی کو بدعنوانی کے الزامات ثابت ہونے پر اُنھیں عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ جسٹس شوکت علی کے خلاف ریفرنس کے سماعت 10 ماہ تک چلی تھی۔

پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور سپریم کورٹ کے دیگر تین ججز کے خلاف عرصہ دراز سے ریفرنس زیر التوا ہیں لیکن انھیں ابھی تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے موجود چیف جسٹس انور کاسی کے خلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل سماعت مکمل کرکے فیصلہ بھی محفوظ کرچکی ہے لیکن ابھی تک وہ فیصلہ نہیں سنایا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی اگلے ماہ مدت ملازمت پوری کرکے ریٹائر ہو جائیں گے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی چیف جسٹس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنیئیر جج ہیں تاہم سپریم جوڈیشل کونسل کی ان سفارشات کے بعد اگر کوئی باہر سے نہ لایا گیا تو جسٹس اطہر من اللہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp