میرے پاکستانیو، گھبرانا نہیں ہے!


گستاخی معاف حضور۔ بارہا چلائیں گے کہ گستاخی معاف۔ اور بار بار وہی گستاخی کیے بھی جائیں گے۔ بس چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور فدوی خطا کا اسٹیچو آف لبرٹی۔ معافی دینا آپ کی قدرت اور غلطی کرنا اس نا چیز کی فطرت۔ آپ قدرت آزمائیے اور ہم فطرت سے شرماتے رہیں گے۔ ویسے اسے محض لفاظی نہ سمجھئے گا۔ آج کا کالم واقعی غلطی سے لکھا جا رہا ہے۔ قلم کو لاکھ توڑنے کی کوشش کریں الفاظ کاغذ پر پھسلتے ہی جا رہے ہیں۔ آئی ایم ویری ساری۔

خطا کی فطرت ہے کہ خود بخود سرزد ہوتی ہے۔ کرنے والا بے بس ہوتا ہے۔ گناہ کی بات اور ہے۔

خیر کالم کی طرف اپنی گاڑی کا اسٹیرنگ موڑتے ہیں۔ ہم نے لاکھ توبہ کی تھی کہ اب سیاست اور حکومت پر اپنے بے پر کے تجزیوں سے باز رہیں گے۔ لعن طعن علیحدہ سنتے ہیں اور لفافہ بھی نہیں ملتا۔ خواتین کی یہ فیلڈ ہی نہیں۔ ہمیں عشق و عاشقی پر افسانے لکھنے چاہئیں۔ اپنے ہی ہاتھ اور اپنے ہی کنگن کی مدح سرائی کرنی چاہیے۔ جیسا کہ ایک کرم فرما نے مشورہ دیا تھا کہ لکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور بس اپنی سیلفیاں اتارنی چاہئیں (فلٹر کے ساتھ)۔ لیکن اسٹیچو آف لبرٹی کیا جانے انارکلی کی شانیں۔ باز نہیں آتا۔

جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا کہ خطا کی سرشت میں سرمستی ہے۔ خود بخود ہو جاتی ہے۔ کسی کرنے والے کی منتظر نہیں رہتی۔ ہم تو یوں بھی نردوش ہیں کہ مواد اس قدر بکھرا پڑا ہے کہ ہمیں تخلیق کرنے کی ضرورت نہیں۔ صحافت کا کام کانٹینٹ پر چلتا ہے۔ دنیا بھر کے صحافی اسی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ لیکن سرزمین پاک کے صحافی جس قدر آزادی صحافت کا رونا روئیں یہ بات کبھی نہیں مانیں گے کہ ہماری حکومت جتنا کانٹینٹ ہمیں مہیا کرتی ہے وہ کسی کے بس کی بات نہیں۔ لیکن مانیں گے تھوڑی۔ ناشکرے۔

لاکھ سوچا تھا کہ اس موضوع پر نہیں لکھیں گے کہ اپنے ہینڈسم پرائم منسٹر صاحب کے اس بیان پر نظر پڑ گئی کہ وہ پاکستان کی لولی لنگڑی معیشت کو چھے مہینے میں ہی اس قابل کر دیں گے کہ وہ اولمپک میراتھن جیت لے۔ کپتان صاحب کا کہا سر آنکھوں پر۔ آخر کو انہوں نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا ہے۔ کینسر کا اسپتال بنایا ہے۔ ان سے بہتر کون جان سکتا ہے معیشت کی باریکیاں۔ نیا پاکستان اسی نئی سوچ کا نام ہے۔

وزیر اعظم صاحب بہت سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ ان کی ملکیت میں ویسے تو کچھ خاص ہے نہیں لیکن دو جوڑوں کے علاوہ یہ سادگی ضرور ہے۔ باوجود اس کے کہ اب وہ اقتدار کے ایوانوں میں کھڑے ہیں (بھلے بیساکھیوں پر ہی سہی) ان کو آپ نے کنٹینر والے دن نہیں بھولے۔ جو بلند و جانے دعوے اور باتیں انہوں نے تب کیے تھے آج بھی اسی روش پر قائم ہیں۔ ”اوئے معیشت، میں تمہیں رلاؤں گا۔ چندے پر چلاؤں گا۔“

ایک گھاگ اور مشاق پکی عمر کے عاشق کی طرح خان صاحب بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ وعدوں کے آسرے پر کسی کو بھی پاگل بنایا جا سکتا ہے۔ یقین نہ آئے تو سو دن میں دنیا بدلنے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ یاد کیجئے۔ آئی ایم ایف سے نجات، سرائیکی صوبہ، خدا جانے کتنے ارب درخت، ساڑھے تین سو ڈیم، واللہ اعلم کتنے کروڑ نوکریاں، اور اب پچاس لاکھ گھر جو بقول فرخ سلیم صاحب کے معیشت کا گئیر بدل دیں گے۔ چھوٹے موٹے ہندسوں کا تو کام ہی نہیں۔ خدا بھلا کرے اس عوام کا جس نے ان وعدوں کو سچ جانا اور ان کے ساتھ محبت کے اس سفر پر روانہ بھی ہو گئی۔

سچ پوچھیے تو جن باتوں اور دعووں پر پہلے ہنسی آتی تھی اب رونا آتا ہے۔ لیکن پھر خیال آتا ہے کہ میرے پاکستانیوں نے گھبرانا نہیں ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔

کاش کہ ان بلند و بانگ دعووں کو بالائے طاق رکھ کر ایک ویژن سامنے رکھا جائے۔ اس دم توڑتے معیشت اور عوام کو محض ایک ورلڈ کپ نہ سمجھا جائے۔ تبدیلی کو کسی مثبت سمت میں لے جایا جائے۔ معیشت کو چندے اور ملک کو جادو کی چھڑی پر نہ چلایا جائے۔ مہنگائی کے عفریت کو حقیقی جانا جائے۔ پچھلی حکومتوں کی نالائقیوں کا رونا رونے کے بجائے اپنی کارکردگی کو بڑھایا جائے۔ وہ فوٹوگرافر جو وزراء کی ’سادگی‘ اور ’زہد‘ کی تصاویر لینے پر معمور ہیں ان کو ترقی کی تصاویر لینے کا۔ موقع دیا جائے۔
لیکن میرے پاکستانیو، آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔ آپ کا وزیر اعظم بہت ہینڈسم ہے۔ پش اپس بہت اچھے لگاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).