سمندر کنارے بیٹھا اسد کہتا ہے می ٹو


ہم اکٹھے بیٹھے تھے کہ خبر ملی کراچی پولیس اب سمندر کنارے سیر پر آئے جوڑوں سے نکاح نامہ طلب کرکے ان کو ہراساں نہیں کرسکے گی۔ دیر آئے درست آئے، اسد خوشی سے اچھل پڑا۔ پوچھا تم کیوں اتنے خوش ہورہے ہو تو کہنے لگا۔ اسکول کی جیل سے تازہ تازہ آزادی ملی تو کالج میں ابھی قدم ہی رکھے تھے کہ تیرے بھائی کو ایک لڑکی پسند آگئی۔ جانتا ہوں یقین کرنا مشکل ہے، مگر اس کو بھی میں اچھا لگ گیا تھا۔ ہمارے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں جو خوشگوار ثابت ہوئیں۔

ایک مرتبہ میرے پاس کچھ پیسے نہیں تھے اور ملاقات بھی کرنا چاہتا تھا تو سوچا سمندر کنارے جایا جائے۔ یوں بھی اس کو سمندر، وہاں پر گھوڑے، اونٹ اور چاٹ وغیرہ خاصی پسند تھی۔ میں نے سوچا بہت ہی کم پیسے خرچ ہوں گے اور بہت ہی عمدہ ڈیٹ بھی ہوجائے گی۔ شاید اس ماحول میں قربتیں مزید بڑھیں۔ سمندر پر جانے کا میرا یہ خیال اسے بھی اچھا لگا تو اگلے ہی دن میری موٹرسائیکل پر ہم وہاں پہنچ گئے۔ صبح کے وقت زیادہ ہجوم نہیں تھا، بادل چھائے ہوئے تھے اور پانی بھی اچھا لگ رہا تھا۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کب ہم نے ہاتھوں میں ہاتھ دیے اور پانی میں چلے گئے۔ اس نے شرارت سے مجھ پر کچھ پانی اچھالا تو مجھے بھی موقع مل گیا۔ یہ اب تک کی ملاقاتوں میں ہماری خوشگوار ترین ملاقات تھی۔ ابھی ہم اس ساری صورتحال سے لطف اندوز ہوہی رہے تھے کہ کنارے پر کھڑے دو پولیس والوں کو سیٹیاں بجا کر ہمیں باہر آنے کا اشارہ کرتے دیکھا۔

محسن! پولیس والے کیا تھے، مذاق تھا یار دونوں ہی کانگڑی، بندوق بھی صرف ایک کے پاس تھی وہ بھی پتا نہیں چلتی تھی یانہیں۔ خیر میں نے سوچا یہ اب خود تو اندر آکر بھیگیں گے نہیں لہذا پانی میں ٹھہرا۔ مگر یار وہ بندی بہت پریشان ہوگئی تھی۔ تو میں نے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔ ابھی کنارے پر پہنچا ہی تھا کہ وہ مجھ پر جھپٹ پڑے۔ جیسے کوئی پتنگ لوٹی ہو۔ کہنے لگے یہ کیا یورپ بنایا ہوا ہے، بے حیائی پھیلارہے ہو۔ ہمیں سب پتا ہے کیا چل رہا تھا یہاں۔ نکاح نامہ ہے؟ میں نے کہا نہیں وہ میری دوست ہے۔

وہ ہنس پڑے۔ ایک تو کہنے لگا یار ہمیں کیوں نہیں ملتی ایسی دوستیں۔ تم لوگ یہ کہاں سے پکڑ لاتے ہو۔ اچھا اب تھانے نہیں جانا تو لا کچھ چائے پانی دے۔ ہمیں بھی مستی کرنی ہے۔ پھر؟ اور لڑکی کہاں گئی؟ میں نے پوچھا۔ لڑکی کو میں وہیں پانی میں رہنے کا کہہ کر آیا تھا اور اپنا والٹ وغیرہ موٹرسائیکل میں چھپا دیا تھا تو میری مسلسل تلاشی کے بعد بھی ان کو کچھ نہیں ملا۔ اب پیسے تو میرے پاس تھے نہیں۔ کچھ بحث کے بعد وہ پہلے میرا اور پھر لڑکی کا نمبر مانگنے لگے اور لڑکی کو بلاکر اس کی تلاشی لینے کا بھی بولا۔ انکار کرنے پر گھر میں فون کرنے کی دھمکی دینے لگے۔

یہ سب بتانے میں تو بہت آسان ہے مگر اس وقت میں بہت ڈر چکا تھا۔ خود سے زیادہ اس لڑکی کی پریشانی تھی۔ جب میں نے ان کو تھکتے ہوئے محسوس کیا تو صاف کہہ دیا۔ نہ میں کوئی چور ہوں نہ ڈاکو۔ یہاں سمندر پر کچھ وقت گزارنے آیا ہوں۔ جیل لے کر جانا ہے تو مجھے لے چلو۔ اس لڑکی کو جانے دو۔ یوں خاصی منتوں کے بعد انہوں نے کہا سڑک پر گاڑی کھڑی ہے۔ بلا اس کو بھی اور آکر بیٹھ گاڑی میں پیار کے پنچھیوں کو ہم تھانے کی سیر کرائیں۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ پھر پھر کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ پھر یہ کہ میں نے اسے باہر بلایا اور ساری بات بتائی۔ وہ مجھ سے بھی زیادہ ڈر گئی۔ محسن وہ کسی بھی وقت رو سکتی تھی۔ مجھے بہت غصہ آرہا تھا۔

اچھا پھر اب میرا تجسس بڑھ چکا تھا۔ پھر یہ کہ جب ہم دونوں چلتے ہوئے سڑک پر پہنچے اور میں تھانے جانے کے لیے پولیس کی گاڑی ڈھونڈنے لگا تو وہاں کوئی گاڑی نہیں تھی۔ میں اتنا گھبرا چکا تھا کہ مجھے تمہاری بھابھی نے بتایا کہ پولیس یہاں نہیں ہے۔ انہوں نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ اس سے پہلے دوبارہ آجائے چلو گھر چلیں۔ ہم جلدی سے موٹر سائیکل پر سوار ہوئے اور وہاں سے بھاگے۔ جانی میں اتنا ڈرا ہوا تھا کہ راستے میں بھی کہیں پولیس نظر آتی تو ڈر جاتا۔ ایک مرتبہ تو آپ کی بھابھی نے شرارت سے کہا۔ اسد، پولیس! میں نے موٹرسائیکل بیچ سڑک میں روک دی اور وہ ہنسنے لگی۔
یہ سب تو ٹھیک ہے وہ والی بھابھی کہاں ہوتی ہیں آج کل؟ میرے معصومانہ سوال پر وہ ہنس دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).