محمد حنیف کا نیا ناول ”ریڈ برڈز“


ہمارا اور انیس بھائی کا گھر، الگ الگ تھا مگر چھت ابھی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ گرمیوں میں جب سب لوگ سونے کے لئے اوپر آتے تو انیس بھائی، ایک طرف اپنی چارپائی پہ بیٹھ کر گیان بانٹتے تھے۔ ان کے مستقل سننے والوں میں، میرے علاوہ، ان کے دو چھوٹے بہن بھائی ہوا کرتے تھے۔

انیس بھائی، ہماری زندگیوں میں فقط پھوپھو کے بیٹے نہیں تھے بلکہ ان زمانوں میں وہ سب کچھ تھے جس کے لئے آج کل تقریبا ڈیڑھ درجن سپر ہیروز درکار ہیں۔ کربلا کے بعد بیبیوں پہ کیا بنی، لیاقت علی خان کو گولی کیوں ماری گئی، قدیر خان کیسے امریکہ کی تمامتر ٹیکنالوجی کے باوجود زندہ بھی ہیں اور کام بھی کر رہے ہیں، یہ سب باتیں ہمیں انیس بھائی بتاتے تھے۔ بس یوں سمجھیں کہ ہمارے لئے ان کی کہانیاں، تاریخ تھیں اور ان کے خیالات، تعلیم۔

پھر ایک پربھات کے بعد یہ سب بدلنا شروع ہو گیا۔ ہلکی ہلکی سردی کے سبب، چھت پہ سونا موقوف ہو چکا تھا سو انیس بھائی کے ٹاک شوز بھی اگلی گرمیوں تک ملتوی قرار پائے تھے، لیکن اب وہ اکثر اپنی بیٹھک کے سامنے، ہمارے سوئی گیس والے پائپ پہ قدم جما کر بتاتے کہ روس، افغانستان میں بہت ظلم کر رہا ہے، اگر اسے افغانستان میں نہ روکا گیا تو یہ جنگ ہماری گلیوں تک آ جائے گی۔ میں سوچنے لگتا کہ سرفراز کالونی کی گلی نمبر چھ میں روسی سپاہی، ٹینکوں سمیت کیسے پہنچیں گے جب کہ یہاں تو کرولا بہت مشکل سے آتی ہے۔ کچھ دن بعد سکول سے گھر آیا تو دادی، چار موم کے دوپٹے سے آنکھیں پونچھ رہی تھی۔ پتہ چلا انیس بھائی فوج میں جا رہے ہیں۔

جنگ کا اگلا تذکرہ اس وقت ہوا جب اسلامیات کی کلاس میں ٹیچر نے بتایا کہ آپ سب لوگ یاد رکھیں یہ وہ سال ہے جب مسلمان، دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہمارے مجاہدوں نے روسی فوج کو بد ترین شکست دی ہے۔ اور پھر یہ لفظ جیسے ناگزیر ہو گئے۔

عراق کی جنگ لگی تو آہستہ آہستہ کئی لڑکوں نے صدام کی تصویروں والے جھنڈے، سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پہ لگانا شروع کر دیے۔ ساتھ والی گلی کےایک گھر میں کچھ پاکستانی، کویت سے آ کر آباد ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد یہ گھر اپنے درس اور کشمیریوں کی مدد کی وجہ سے شہرت اختیار کر گیا۔ ان کے بچے، ٹیوشن پڑھنے آتے تو اکثر بتاتے کہ ڈاکٹر چاچو، کشمیری مجاہدین کا علاج بھی کرتے ہیں۔

مگر یہ سب پس منظر ہے۔ اصل واقعہ، محمد حنیف کا نیا ناول ”ریڈ برڈز“ ہے۔ صحرا میں گرا ایک امریکی پائلٹ، عدم آباد کا کوئی شورش زدہ علاقہ، انسانوں اور آسمانوں کے درمیان ترپالوں جیسی کمزور چھتوں کا بنا ریفیوجی کیمپ، مومو کا وہ اکتسابی علم جو صرف حادثوں سے جنم لینے والے رویوں کا پاٹھ ہے، مٹ کی وہ آواز جو جانور اور انسان کی فکری استعداد سے ماورا ہے، پراسرار طور پہ غائب ہو جانے والا نوجوان علی اور یقینی طور پہ ہر حادثے کے بعد نمودار ہونے والی امدادی کارکن۔ یہ سب مل کر اس المیے کا اہتمام کرتے ہیں جنہیں محمد حنیف کا قلم دبی دبی مسکراہٹوں کے ساتھ تحریر کرتا ہے۔

شادی شدہ زندگی میں انفرادی مسائل، اجتماعی جذباتی استحصال کو کیسے راستہ دیتے ہیں، بم گرانے والے کو ہتھیار تھمانے والے، جن لوگوں کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں، انہی لوگوں کو غیر محفوظ کیسے کر دیتے ہیں۔ وہ کونسی لکیر ہے جہاں ذاتی آسودگی، قومی افتخار کا چوغہ اوڑھتی ہے، کیا یہ مہذب قوموں کا اخلاقی فرض ہوا کرتا ہے کہ وہ جنگ میں گھرے علاقوں میں امداد بھجوائیں یا قومی تہذیب کا فرضی اخلاق۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جن بچوں کے کھیلنے کو اب پلے ڈو بھجوائی جاتی ہے، پہلے انہی کے ملکوں کو تباہ کرنے کے لئے بم پھینکے جائیں۔ محمد حنیف کے لفظ، سوال نہیں اٹھاتے، آپ کے جواب مسمار کرتے ہیں۔ پڑھنے والا، قریب قریب اسی مغالطے کا شکار رہتا ہے، جس میں لاپتہ ہو جانے والے افراد کے یار دوست۔ ”یہ ہماری بات تھوڑی ہو رہی ہے“۔

کتاب کا طلسم، سرورق سے شروع ہوتا ہے اور فلیپ کی دوسری جانب، مصنف کی اس تصویر تک جاتا ہے جسے کسی دیکھنے والی آنکھ نے کھینچا ہے۔
لندن لائیریری میں کل اس کتاب کے سلسلے میں ایک تقریب ہوئی۔ پہلے، رضیہ اقبال نے محمد حنیف سے کتاب کے بارے میں بات کی پھر شرکاء نے اپنے اپنے سوال پوچھے۔ جنگ سے جڑی معیشت، پاکستان میں صحافتی آزادی، سبین محمود کا انتساب، لاپتہ افراد، مصنف کے پرانے ناولوں اور پاکستان کی نئی تبدیلی کے درمیان، محمد حنیف کا ایک جملہ کل سے میرے ساتھ ہے۔

”لوگ سمجھتے ہیں کہ گیارہ ستمبر (9/11) کے بعد جنگ شروع ہوئی اور میں انہیں کب سے بتا رہا ہوں کہ جنگ تو اس وقت سے شروع ہے، جب میں سکول میں تھا“۔

ان باتوں کو اب بیس بائیس برس ہو چکے ہیں۔ انیس بھائی نے پی ایم اے میں کچھ عرصہ گزارا پھر وہ واپس آ گئے۔ میں ابھی تک تاریخ کو کہانی اور تعلیم کو خیال سے چھان چھان کر الگ کرنے میں وقت کاٹتا ہوں۔ خدا معلوم، انیس بھائی کو جنگ کی ہماری گلیوں میں آمد اب یاد بھی ہے کہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).