کیا ہندو ہونا جرم ہے؟


یہ عنوان ہمارے ایک ہندو بھائی مکیش میگھواڑ کی تحریر کا ہے جو سماجی رابطے کی سائٹ پر مجھے پڑھنے کو ملی۔ تحریر، جٍیسا کہ عنوان ہی سے ظاہر ہے، خاصی تلخی سے معمور ہے۔ یہ تلخی مکیش میگھواڑ کی تحریر ہی میں نہیں، سندھ کے ہر اس ہندو کے احساسات میں دیکھی جا سکتی ہے جس کا تعلق محروم وسائل طبقے سے ہو۔ دائرے کو ذرا وسیع کیا جائے تو کچھ اور بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ جب بھی مجھے حج عمرے کے موقع پر آسودہ حال ہندوستانی مسلما نوں سے ملنے کا موقع ملا تو انہیں ہندوستان، ہندوستانی حکومت اورہندوستانی نظام کے حق میں رطب اللسان پایا۔ کسی بھی محروم وسائل ہندی مسلمان سے ملاقات ہوئی تو اسے شاکی ہی دیکھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ بھائی مکیش نہ صرف ہندوؤں کے کسی قابل ذکر طبقے کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ ان کی تحریر ایک خاص سوچ کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے۔ ادھر راولپنڈی اور اس کے قرب و جوار سے آگے قبائلی علاقوں اور سوات تک ہندو سکھ برادری نہ صرف امن اور چین سے رہ رہی ہے بلکہ کاروباری لحاظ سے بھی آسودہ حال ہے۔ مجھے ذرائع ابلاغ پر شائع کہانیوں اور داستانوں سے مطلقاً دلچسپی نہیں ہے۔ ذرائع ابلاغ کا معاملہ یہ ہے کہ کوے کو کبوتر اور کبوتر کو شاہین بنانے اور ثابت کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ اور مخاطبین ہیں کہ یقین ہی نہیں کرتے ایمان کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ ایوان اقتدار میں موجود خواتین و اصحاب کا جائزہ لیں میری بات کا یقین آ جائے گا۔

میرا بچپن ایک ہندو تایا چوہدری حکم چند آنند کی گود میں گزرا ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں پروفیسر کرم حیدری، سید ضمیر جعفری اور عدم کہیں کسی کے گھر میں شعر و سخن کی محفل جماتے تو معدودے چند احباب کی اس مجلس میں والد صاحب مجھے اور تایا آنند کو ساتھ لے کر جاتے جہاں تایا اپنے جریدے ’’بسنت‘‘ کا تازہ شمارہ، غالباً ہفت روزہ، جملہ شرکا کی خدمت میں پیش کرتے۔ تایا آنند تو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ مکیش میگھواڑ صاحب کو میں پیشکش کرتا ہوں کہ کبھی پنڈی اسلام آباد آنا ہو تو میں ان کے صاحبزادے سے ملواؤں گا۔ ہو سکا تو والد صاحب کو بھی ساتھ لیتا آؤں گا اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا مکیش صاحب، وہ چچا کے چرنوں کو چھو کر ملیں گے۔ ان معروضات کے باوجود مجھے مسئلے کی سنگینی سے انکار نہیں ہے۔ سندھ کے ایک بڑے حصے میں وہ مسائل موجود ہیں جن کا ذکر صاحب تحریر نے کیا ہے۔ میرا یہ اختلاف البتہ موجود ہے کہ جبری مذہب کی تبدیلی کو چھوڑ کر باقی تمام شکایتیں وہ ہیں جو سندھ ہی نہیں ملک کے ہر شہری کو درپیش ہیں۔ ملک بھر میں ہر روز سینکڑوں فوجداری مقدمات درج ہوتے ہیں۔ سائل کے مسلمان ہونے کے باعث ذرائع ابلاغ انہیں خبر نہیں بنا تے۔ ادھر کسی اقلیتی (لسانی، مذہبی، نسلی) شخص سے کوئی زیادتی ہوئی ادھر خبروں، تبصروں اور تجزیوں کا ایک طوفان آ جاتا ہے۔ صاحب مضمون نے محلے کی جس مسلمان چچی اور اپنی ہندو والدہ کی جو منظر کشی کی ہے وہ درست ہے۔ میں خود اسی ماحول میں پلابڑھا ہوں۔ ہندو یا کسی بھی مذہب کی لڑکیوں کی جبری تبدیلئ مذہب کی اجازت نہ اسلام دیتا ہے اور نہ اخلاق اور نہ قانون۔ جب خود قرآن ’’دین (قبول کرنے) میں کوئی جبر نہیں‘‘ کہہ رہا ہے تو کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی ہندو یا کسی اور مذہب کی بیٹی کو ورغلا کر اس سے شادی کر ے۔ یہ مسئلہ مذہبی سے زیادہ معاشرتی ہے۔ اسے مذہب سے ہرگز نتھی نہ کیا جائے۔ پھر بھی اگر کوئی عاقل ،بالغ ،ہوش مند ہندو خاتون مذہب تبدیل کر کے کسی مسلمان کے ساتھ شادی کرنا چاہے تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟

دنیا بھر میں ایک لہر چل پڑی ہے کہ عاقل، بالغ شخص کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا اختیارحاصل ہے تو اس سے ہندو آبادی کو استنثیٰ کیسا؟کہا جا سکتا ہے کہ پھر یہ کام مسلمان عورت بھی کر سکتی ہے۔ جی ہاں ،کر سکتی ہے مجھے اس سے ذرہ برابر اختلاف نہیں ہے لیکن کر کے تو دیکھے۔ مسلم معاشرت یہاں مسلم اکثریتی پاکستان ہی میں نہیں، ان معاشروں میں بھی بڑی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے جہاں مسلمان معمولی سی اقلیت میں ہیں۔ میں نے فلپائن میں دیکھا مسلمان محض تین چار فی صد ہیں لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان عورت مذہب بدل کر مسیحی سے شادی کر لے۔اس کے برعکس وہاں مسیحی عورت کا مسلمان ہونا عام چلن ہے۔ ہندوستان ایک مکمل ہندو ریاست ہے ۔ آئینی طور پر سیکولر سہی، لیکن وہاں کی اعلیٰ عدلیہ پوری بالغ ہندو لڑکی کے مسلمان ہو کر مسلمان سے شادی کر نے کو لو جہاد قرار دے کر ہندو ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ مغربی معاشرت میں تو یہ بہت عام بات ہے کہ غیرمسلم مرد ہو یا عورت کسی مسلمان سے شادی کرنے سے پہلے اسے اسلام قبول کرنا پڑتا ہے۔ اپنی ان معروضات کے باوجودمیں ہی نہیں ہر دردمند انسان سندھ کے پسے ہوئے ہندوؤں کے درد کو بخوبی سمجھتا ہے۔ جان جوکھوں میں ڈال کر اولاد کو جوان کیا جائے تو معلوم ہو کہ وہ مذہب تبدیل کر کے کسی مسلمان کے ساتھ فرار ہو گئی ہے۔ لیکن میں پھر عرض کروں گا کہ یہ مذہبی مسئلہ ہے ہی نہیں ۔اس کا تعلق معاشرت سے ہے ۔جس معاشرت میں خاندانی اور معاشرتی نظام مضبوط بنیادوں پر استوار ہو تو اس معاشرتی اکائی کا ہر ایٹم (خاندان) انرٹ(Inert) گیس بن کر اپنے ہر ہر الیکٹرون (عورت) کو پکڑکر رکھتا ہے جیسے مسلمان معاشرت۔ یہ انرٹ یا رائل گیسیں مشکل سے چھ آٹھ ہیں اور کسی دوسرے عنصر سے کیمیائی تعامل (نکاح) کی روا دار نہیں ہوتیں۔ مسلمان معاشرت کے علاوہ دیگر مذہبی آبادیاں اپنے آخری شیل میں جو خلا رکھتی ہیں، وہیں کسی دوسری معاشرت کا کوئی الیکٹرون (مرد) گھس کر فوراً کیمیائی تعامل(نکاح) کر گزرتاہے۔ ان تمام عقلی دلیلوں اور اپنے مسلمان ہونے کے باوجود میرا ووٹ اس ہندو باپ کے حق ہی میں پڑے گا جس کی بیٹی کسی مسلمان کے ورغلانے پر مذہب بدل کر اس کے نکاح میں آ جائے۔ مختصر سے کالم میں اس موضوع سے انصاف ممکن نہیں ہے۔ کوشش ہے کہ اس بابت کسی تحقیقی مجلے میں تفصیل سے کچھ عرض کروں۔

مکیش میگھواڑ صاحب نے دھرتی کے جس قابل فخرسپوتوں سے اپنا خونی تعلق بتایا ہے ان کے نام ملاحظہ ہوں: ’’بھگت سنگھ سے لے کرحیموں کالانی تک، روپلو کولہی سے لے کر راجہ داہر تک یہ دھرتی میرے ہی خون سے لال ہے۔‘‘ ان چاروں میں سے روپلو کولہی کو نکال دیں، دھرتی کا یہ قابل فخر سپوت حریت پسند تھا۔ اس نے انگریزی استعمار کے خلاف اپنی جان قربان کر دی۔ 1843ء میں انگریزوں کے ہاتھوں حکمرانوں کی شکست کے بعدیہ کوہلی اور سوڈھو قبائل ہی تھے جن کے ہزاروں جان نثاروں نے اپنی جان اور زمینیں کچھ اس طرح قربان کیں کہ آج ماضی کے یہ حکمران خاندان سندھ کے ہندو ٹھاکروں کی غداری کے باعث دلت بن گئے ہیں اور ٹھاکر آج اسی طرح دندنا رہے ہیں جیسے انگریز ان کو اپنے جانشین کے طور پر چھوڑ گئے تھے۔ سپوتوں ہی کا ذکر کرنا ہے تو روپلو کو مروانے والے ہندوٹھاکر بھی تو اسی دھرتی کے لوگ تھے۔ ان کا تذکرہ کس زمرے میں ہو گا؟ وہ تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے تاریخی تقاضے کو تسلیم کرتے ہوئے کوہلی خاندان کی ایک دلت بیٹی کرشناکماری کو سینیٹر بناکر اس خاندان کاسا را نہیں کچھ قرض ڈیڑھ سو سال بعدچکا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو میرا سلام۔

رہا ہیموں کالانی تو وہ گاندھی جی کا پیروکار تھا۔ گاندھی جی کی ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ نامی تحریک کا یہ سرگرم نوجوان کوئی حریت پسند نہیں تھا۔ وہ ٹرین کی پٹڑی اکھاڑنے کی کوشش میں دھر لیا گیا اور 1943ء میں اس نے پھانسی پائی۔ یہ دہشت گرد ہندوستان والوں کا کچھ اس طرح کا ہیرو ہے کہ وہاں گجرات میں گاندھی سمادھی کے پاس اور متعدد دیگر شہروں میں اس کے یادگاری مجسمے نصب ہیں۔ ہندوستا ن کے کئی شہروں میں درجنوں سڑکوں اور پارکوں کے نام اس کانگرسی نوجوان کے نام سے ہیں جو ہمارے مکیش میگھواڑ کا ہیرو ہے۔ 1943ء میں جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی، اسے پھانسی دی گئی تو اس کے آخری الفاظ ’’بھارت ماتا کی جے‘‘ تھے۔ بعض روایات کے مطابق مارکس یا اینگلز نہیں، لینن اورٹرا ٹسکی جیسے دہشت گرد اس کے زیرمطالعہ رہتے تھے۔ مکیش صاحب کے دوسرے ہیرو بھگت سنگھ ہیں۔ سکھ خاندان کے اس نوجوان کے خاندان کی شناخت ہی مہاراجہ رنجیت سنگھ کے فوجیوں کی ہے۔ اس کا دادا ارجن سنگھ، سوامی دیانند کی تحریک آریہ سماج کا پیروکار تھا۔ بھگت سنگھ نے 1929ء میں سینٹرل لیجیسلییٹو اسمبلی کی گیلری میں بیٹھ کر اسمبلی میں دو بم پھینکے۔ جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن لوگ زخمی ہوئے۔ دنیا کا کوئی قانون لاگو کر لیں یہ عمل دہشت گردی ہی کے زمرے میں آتا ہے۔

کھلے سمندر میں کہیں ایک تجارتی قافلہ جا رہا ہے۔ ساحلی ملک کے سرکاری فوجیوں نے اس پر امن قافلے کو لوٹا۔ مال و دولت پر قبضہ کیا۔ مردوں کو قتل کیا یا قیدی بنایا۔ عورتوں بچوں کا وہی حشر کیا جو ایسے مواقع پر ہوا کرتا ہے۔ قارئین کرام دنیا کا کوئی مذہب کوئی قانون مجھے بتائیں جس کی رو سے یہ ریاستی قزاقی جائز قرار دی جا سکتی ہو۔ یہ سمندری ڈاکہ راجہ داہر کے فوجیوں نے ڈالا تھا۔ یہ ڈاکہ کوئی عباسی خلیفہ ڈالتا تو بھی میرے جذبات وہی ہوتے جو راجہ داہر کے اس عمل کے نتیجے میں اس وقت ہیں۔ انسانیت کے خلاف اس سنگین جرم کے مرتکب راجہ داہر جناب مکیش میگھواڑ کے ہیرو ہیں، آگے سینئے! محمد بن قاسم کوئی جارحیت یا لوٹ مار کرنے نہیں آیا تھا۔ راجہ داہر کا قلع قمع کرنے کے بعد اس نے عنان اقتدار راجہ داہر ہی کے اس حلالی بیٹے کو سونپی جس کی آنکھیں اسلام کے نورِ بصیرت کے آگے چندھیا گئی تھیں۔ محمدبن قاسم نے کوئی لگان، کوئی محصول، کوئی ٹیکس نافذ نہیں کیا نہ کوئی وائسرائے چھوڑا۔ سندھ کا اقتدار مقامی لوگوں کے حوالے کیا اور اپنی فوجیں واپس بغداد کی طرف ۔

شہادت ہے مطلوب مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی!

ہندو ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔ لیکن یہ جرم عظیم ہے کہ مسلّمہ دہشت گردوں کو ہیرو بنایا جائے۔ ہمارے نزدیک پوجا پاٹ کرنے والے ہر ہندو کا خون آج بھی محترم ہے اتنا ہی جتنا کسی مسلمان کا۔ لیکن کانگرسی دہشت گردوں کو جو شخص اپنا ہیرو قرار دے، امریکہ جیسے ملک میں تو اس کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے۔ امریکہ میں ذرا کسی لائبریری سے دہشت گردی پر کوئی کتاب اپنے نام کوئی جاری کروا کر دیکھے، دیکھتے ہیں کتنے دن جیل سے باہر رہتا ہے۔ افسوس ناک امر اس سے آگے ہے۔ لکھنے والا اپنے انداز فکر کا اسیر ہوتا ہے۔ چھاپنے والے ایڈیٹر کی بھی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہم سب نامی سائٹ کے ایڈیٹرصاحب ان معلومات سے بہرہ مند نہیں جو گزشتہ سطور میں درج ہیں۔ اس کے باوجود دہشت گردی پر مبنی صاحب مضمون کی فکر کی اشاعت کیا ہماری ہندو آبادی کے بارے میں کوئی مثبت تاثر چھوڑے گی؟ تایاحکم چند آنند آج ہوتے تو میرے والد صاحب کے خیال میں ایسے ہندوؤں کو دائرہ ہندومت سے باہر کہیں جگہ دیتے۔ اور ایڈیٹر صاحب اس طرح کی عبارتیں مسلسل شائع کر کے ملک میں رہی سہی مذہبی ہم آہنگی اور ملکی استحکام کو انہدام کی طرف لے جا رہے ہیں۔ میں پھر کہوں گا اور بڑی دل سوزی سے کہوں گا دل چیر کر نہیں دکھا سکتا کہ اﷲ کی ساری مخلوق زمین کے وسائل پر برابر کی حق دار ہے۔ دہشت گردوں کے حق میں تحریریں شائع کر کے ملکی ترقی و استحکام کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔ تو پھر اچھے طالبان اور برے طالبان کی لایعنی بحث اورطالبان کے لیے مردہ باد کے نعرے کیوں؟

(ادارہ ہم سب کا ڈاکٹر شہزاد اقبال شام کے تمام خیالات سے اتفاق ضروری نہیں۔ تاہم ہم سب کی پالیسی کے مطابق قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی رائے کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں۔)

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام اسلامی قانون کے پروفیسراوردستوری قانون میں پی ایچ ڈی ہیں ۔ گزشتہ 33 برس سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔

dr-shehzad-iqbal-sham has 9 posts and counting.See all posts by dr-shehzad-iqbal-sham