ہندوستان کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کر سکتے؟


یہ آج سے ستائیس سال پہلے کی بات ہے۔ 1991ء کا سال تھا اور بھارت میں چندر شیکھر کی سربراہی میں بائیں بازو کی سماج وادی جتنا دل (راشٹریہ) کی مخلوط حکومت بر سر اقتدار تھی جو حزب اختلاف کی بڑی جماعت راجیو گاندھی کی کانگریس آئی کی حمایت پر ٹکی ہوئی تھی۔ پہلی خلیجی جنگ کا اختتام ہو رہا تھا اور بھارت کی معیشیت بیرونی ادائیگیوں کےسخت عدم توازن کا شکار تھی۔

جنوری 1991ء میں بھارت کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر صرف ایک ارب اور بیس کروڑ ڈالر رہ گئے، جو کہ انتہائی ضروری تین ہفتوں کی در آمدات کے لیے مشکل سے کافی تھے۔ بھارتی روپیا سخت دباو میں آ گیا تھا۔ خلیجی جنگ کی وجہ سے بھارت کا تیل کا در آمدی بل بڑھ گیا اور بر آمدات سکڑ کر رہ گئیں۔ اس مشکل وقت میں سرمایہ کاروں نے بھی راہ فرار اختیار کرنا شروع کر دی۔ سال کے وسط تک یہ صورت احوال ہو گئی کہ اندرونی قرضے جی ڈی پی کے 53% تک بڑھ گئے، اور ریزرو بنک آف انڈیا کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر صرف 60 کروڑ ڈالر رہ گئے۔ ملک عملی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ ایشیا کا مرد بیمار سخت مشکل میں تھا۔

اس وقت بھارت کو ڈالروں کی سخت ضرورت تھی۔ نتیجتہ حکومت کو قرض حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ دو ارب اور دس کروڑ ڈالر کے قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع ہوئے، تو آئی ایم ایف نے یہ شرط رکھی کہ بھارت اپنے سونے کے محفوظ ذخائر میں سے 67 ٹن سونا آئی ایم ایف کے پاس زر ضمانت کے طور پر رکھے گا۔ بھارتی حکومت کے پاس یہ شرط ماننے کے سوا کوئی اور چارہ نہی تھا۔ حسب شرائط 21 مئی سے 31 مئی تک ریزرو بنک آف انڈیا نے یہ سونا خصوصی چارٹرڈ جہاز کی پروازوں کے ذریعے سے بنک آف انگلینڈ اور یونین بنک آف سویئٹزر لینڈ تک پہنچایا۔ اس سے پہلے یکم جولائی اور تین جولائی کو دو مراحل میں بھارت کو اپنے روپے کی قدر بھی کم کرنا پڑی۔ اس سے طرح قرض تو مل گیا لیکن ملک میں سخت بے چینی پھیل گئی۔ اس طرح کی کڑی شرائط پر قرض حاصل کرنے پر حکومت کو سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، اور حکومت کے اس اقدام کے چند ماہ بعد ہی کانگریس نے حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی اور شیکھر سرکار کو رخصت ہونا پڑا۔

ان مشکل حالات میں ان کے فوراً بعد آنے والی پی وی نرسیمہا راو کی حکومت کو اپنی معیشیت کو بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے کھولنا پڑا۔ حالاں کہ ان کے اس اقدام کو اس وقت کی اپوزیشن نے قومی خود مختاری کے منافی قرار دیا۔
نرسیمہا راو نے من موہن سنگھ کو وزیر خزانہ مقرر کیا۔ اور اپنے اقتدار سنبھالنے کے ایک ہفتے کے بعد ہی اپنے خطاب میں ملک کو در پیش نازک صورت احوال پر قوم کو اعتماد میں لیا۔

در حقیقت یہ من موہن سنگھ تھے جنھوں نے بھارت میں کھلی منڈی کی معیشیت کو متعارف کروایا۔ سرخ فیتے کی رکاوٹوں کو کم کیا۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو بھارت آنے کی دعوت دی اور پہلی بار بھارت میں مشہور زمانہ کولا وار شروع ہوئی۔ بھارتیوں نے پہلی بار کوکا کولا اور پیپسی کولا سے شناسائی حاصل کی۔ ان کے اس اقدام کی ملک کے اندر پہلے تو بھر پور مخالفت ہوئی کہ بیرونی سرمایہ کاروں کے آنے سے ملکی صنعت پر منفی اثر پڑے گا۔ لیکن لوگوں کے خدشات بے بنیاد ثابت ہوئے۔

آنے والے وقت نے بتایا کہ در حقیقت یہ فیصلہ ہی ہندوستانی معیشیت کا وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا، جس سے بھارتی معیشیت کا جمود ٹوٹا۔ معیشیت نے ٹیک آف کیا۔ ملک میں سرمایہ آیا اور لوگوں کو روز گار ملا۔ اس کے بعد سےبھارت نے ہر سال اوسطاً 7 سے 8% سالانہ کی شرح سے ترقی کی۔

بالآخر 2009ء میں وہ وقت بھی آ گیا کہ جب بھارت نے اس سونے سے تین گنا سونا آئی ایم ایف سے خریدا جو کہ کبھی انتہائی مجبوری میں اسے ان کے پاس ضمانت کے طور پر رکھنا پڑا تھا۔ آج بھارت کے پاس غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر 426 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں جو کہ اس کے ایک سال کے امپورٹ بل کے لیے کافی ہیں۔

پاکستان بھی آج وہیں کھڑا ہے ،جہاں کبھی ہندوستان کھڑا تھا۔ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر اس وقت 11 ارب ڈالر تک گر چکے ہیں۔ بر آمدات میں ہم محض 24 ارب ڈالر میں اٹکے ہوئے ہیں۔ اور در آمدات 48 ارب ڈالر کا ہندسہ چھو رہی ہیں۔جب کہ بنگلا دیش بھی اس وقت 40 ارب ڈالر کا سامان بیرونی دنیا کو فروخت کر رہا ہے، اور بھارت کی بر آمدات 300 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہیں۔

ہمارا بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ اس وقت 20 ارب ڈالر کو چھو رہا ہے، اور روپیا سخت دباو کا شکار ہے۔ لیکن ہم اتنی بھی بری صورت احوال کا شکار نہیں، جتنی کہ 1991ء میں ہندوستان کو درپیش تھی۔ ابھی پاکستان کے پاس دو سے تین مہینے کے امپورٹ بل کے لیے رقم موجود ہے۔ جی ڈی پی کے حجم کے لحاظ سے ہم دنیا کی بیالیسویں بڑی معیشیت ہیں۔ قوت خرید کی برابری کے لہٰذا سے پچیسویں اور آبادی کے حساب سے پانچویں یا چھٹے نمبر پر ہیں۔ ابھرتی ہوئی گیارہ (emerging 11) معیشیتوں میں سے ایک ہیں، جن کے بارے میں یہ خیال ہے کہ 2025ء تک دنیا کی 11 سب سے بڑی معیشیتیں ہوں گی۔

درست پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کثیر آبادی کو علوم و فنون سے آراستہ کیا جائے۔ بند صنعتوں کو چالو کیا جائے۔ ملک میں تیکنیکی تعلیم کے ادارے قائم کیے جائیں اور معیشت کو زرعی سے صنعتی بنانے کی طرف پیش رفت کی جائے۔ علم پر مبنی معیشت کو ترقی دینا ضروری ہے۔ چین کو دنیا کا کارخانہ کہا جاتا ہے اور بھارت کو دنیا کا دفتر۔ بھارتی آئی ٹی ماہرین آج بھارت میں بیٹھ کر پوری دنیا کے کاروبار چلا رہے ہیں۔ آج کی دنیا گوگل، ایما زون اور علی بابا ڈاٹ کام کی دنیا ہے۔ سوچنے کی بات ہے آج کی دنیا کی ترقی میں ہمارا کتنا حصہ ہے؟

آج دنیا کے ہر ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بھارتی ماہرین کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی کثیر آبادی کو بھی اپنے لیے نعمت بنا لیا ہے۔ جب کہ ہمارے نوجوان اکثر غیر ہنر مند یا کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے بیرون ملک مزدوری یا محض کم تر درجے کی ملازمتیں کر رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان ابھی تک سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے جلسوں میں دیوانہ وار لڈیاں ڈال رہے ہیں۔ تاش کھیل رہے ہوتے ہیں یا پھر اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہو رہے ہیں۔ اس عظیم سرمائے کو تعلیم و تربیت کی سخت ضرورت ہے۔

ضرورت ہے کہ ملکی صنعتی پیداوار بڑھائی جائے اور کوشش کی جائے کہ برامدات بڑھیں اور در آمدات پر قابو رکھا جائے۔ گورنس اور ٹیکس اکٹھا کرنے کا نظام بہتر کیا جائے تو کچھ عجب نہی کہ آئندہ پانچ سال کے دوران ہی ہم اس طرح کے بحران سے نکل آئیں۔ اگر ہندوستان ہم سے بری صورت احوال سے دو چار ہونے کے باوجود آج دنیا کی قابل ذکر معاشی طاقت بن سکتا ہے، تو ہم یہ کیوں نہی کر سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).