کس نے چاہا تجھے


تیز آواز نکالتی ککر کی سیٹی باورچی خانے کے سناٹے کو روندتی ہوئی گھومے جارہی تھی۔ برتنوں کا ڈھیر کسی امیر کی قسمت کی طرح چمکنے کے لیے میرا منتظر سنک پر پڑا بھنبھنا رہا تھا۔ ادھر ادھر بکھرے پانی کے خالی کین باورچی خانے کی سفید روشنی کو وحشت ناک بنا رہے تھے۔ قیمتی چیزوں سے بھرا باورچی خانہ میری عدم توجہ کے باعث جوان اور خوب صورت بیوہ کی طرح سوگوار تھا اور میں ہمیشہ کی طرح موقع واردات پر ہوتے ہوئے بھی کسی بات کی عینی شاہد نہ تھی۔ لاؤنج میں عفان اور ثانیہ کھانے کی طلب کو موبائل سے بہلاتے ہوئے صوفے پر پاؤں سکیڑے بے زاری سے بیٹھے تھے۔ ٹی وی ہمیشہ کی طرح تیز آواز میں چل رہا تھا، یہ آواز اندر کے سناٹے کو اکثرکچھ کم کردیتی، میری تنہائی کو یہ چلتی پھرتی تصویریں ذرا دیر کو بہلادیتیں جن پر میں آتے جاتے نظر ڈالتی اور واپس اپنے لاشعور کی حسین دنیا میں قید ہوجاتی۔

زندگی میں یوں تو کسی چیز کی کمی نہ تھی پر جس کی طلب میں گڑگڑاتی رہی تھی وہی نہ مل سکا۔ اس نارسائی کے دکھ نے مجھے غائب دماغی کی اس انتہا پر پہنچا دیا کہ صرف میری شخصیت کی ہی نہیں بلکہ گھر کے درودیوار کی بھی ساری نفاست نچڑ گئی۔ زندگی نے سالوں پہلے جینے کا قرینہ چھینا تھا سو اب میں کسی سلیقے کی قائل نہ رہی تھی۔ سلیقہ اگر زندگی میں کوئی اہمیت رکھتا تو آج میرا عشق منہہ کے بَل نہ پڑا ہوتا کہ بس ایک یہی کام تو میں نے بھرپور سلیقے سے کیا تھا اور پورے قرینے سے نبھایا تھا۔ اب کہیں نہ ٹھہرو اور کچھ نہ دیکھو کہ اصول پر میں زندگی کو رگڑے پہ رگڑا دیے جارہی تھی۔

بھوک سے بچوں کے بگڑے ہوئے تاثرات، ککر کی سیٹی کے شور اور ٹی وی کی تیز آواز نے مجھے زیادہ دیر حقیقت سے فرار نہ ہونے دیا اور میں جلدی جلدی کاموں سے سر پھوڑنے میں جت گئی۔ عموماً صرف ضروری کاموں کو ہاتھ لگاتی اور نہایت سرعت کے ساتھ ان سے جان چھڑاکر اپنے خیالوں کی حسین دنیا میں کھو جاتی جہاں میرے من کا دیوتا پوری شان سے ایستادہ تھا۔ اس کی پوجا کو دھرم بنائے میں سالوں سے بنا رکے اور تھکے محبت کے جاپ پڑھ رہی تھی۔ یہ الگ بات کہ اتنے وظیفوں کے بعد بھی میں تپتی دوپہر میں سواری کی آس میں کھڑے مسافر کی طرح نامراد ٹھہری تھی۔ میری آنکھوں کی ویرانی میں ماضی سسکیاں بھرتا اور میں بستر پر پڑی دن کا بیشتر وقت کسی ٹائم مشین کے سہارے ماضی میں گزارتی، جہاں ایک ہاتھ خاموشی سے آکر میرے شانوں کو گھیراؤ کرتا اور میں آنکھیں بند کیے اس سینے میں سمٹ جاتی جو کبھی میرا غرور تھا۔ محبت اور خود فراموشی کے وہ حسین سمے پر لگا کر اُڑ جاتے۔ گمبھیر آواز میں اپنی شاعری پڑھتا وہ میرے دل کی دنیا روشن کرتا۔ غزلیں جن میں محبت کے کلموں اور عشق کے ایمان کی تکرار ہوتی۔ نظمیں جن میں محبت کے خمار کا نشہ سا ہوتا۔ میں اکثر نظم گنگناتے ان ہونٹوں کو اچانک چوم لیتی اور وہ دیر میری اس حرکت پہ ہنستا پھر مجھے خود سے لپٹا لیتا۔ اس کی شاعری ہی تو میری کل کائنات تھی۔ قدرت نے اس کو شاعر میرے لیے تو بنایا تھا۔

شوںںںںںںںں۔ سیٹی ہٹنے پر ککر سے ایک نیا شور بلند ہوا۔ میں ماضی کے دریچوں سے لپکنے والی ٹیسوں پر قابو پاتے ہوئے سالن بھوننے لگی۔ آلو، دہی، ہرا دھنیا، مرچیں سب چیزیں یاد کر کر کے سامنے رکھ لیں۔ اب تو دماغ ایسا ہوچکا تھا کہ اکثر سامنے کی چیز یں بھی دکھائی نہ دیتیں۔ بس ایک اس کے نقوش تھے جو برسوں بعد بھی دھند لائے نہ تھے۔
کس نے چاہا تجھے!
مجھ کو بس ایک افسانہ درکار تھا

میری سانس سینے میں اٹک گئی۔ یہ آواز میرے اندر سے نہیں بلکہ ٹی وی سے بلند ہو رہی تھی۔ میں صرف اس چہرے کے نقوش ہی نہیں بلکہ وہ آواز بھی اب تک نہ بھول پائی تھی۔ اپنی سوچوں سمیت جہاں تھی وہیں تھم گئی۔ قدموں کو موڑ کر گردن گھمانے کی ہمت بھی ختم ہو چکی تھی۔ بھگونے میں چمچا پکڑے پکڑے دائیں ہاتھ کی کلائی جھلس چکی تھی لیکن اندر لگی آگ کی تپش اس سے کہیں زیاد تھی۔
دوستوں کے سوالات کے واسطے
اپنی بے رنگ سی شاعری کے لیے
میرے من کی طرح کب سے خالی تھی جو
کب سے خالی پڑی ڈائری کے لیے

میں باورچی خانے کی دیوار کے ساتھ کمر رگڑتی ہوئی بیٹھتی چلی گئی۔ میرے دیوتا کی اس اعترافی نظم نے برسوں کی تپسیا اکارت کردی۔ میرے تکیے کے نیچے اب تک اس کے خوابوں کے جگنو سوتے تھے۔ وہ آج بھی میرے کمرے کی تاریکی میں آشاؤں کی چاندنی جیسا تھا۔ میں سکتے کے عالم میں تھی اور وہی گمبھیر آواز سیسے کی طرح میرے کانوں میں اتر رہی تھی۔
رت جگوں کے خلاء تیرگی کے لیے
ایک مہتاب کی جستجو تھی مجھے
جو مری داستاں کو کوئی رنگ دے
ایسے اک باب کی جستجو تھی مجھے

ابھی تو اس کی یادوں کا جنگل ہرا تھا۔ میرے تکیے کے آنسو اور پیروں کے آبلے سوکھے بھی نہ تھے۔ محبت کی داستان کو امر کرنے کے لیے میں نے جدائی کا زہر پیا تھا۔ کیا سوچا تھا اور کیا ہوگیا۔ اچھا ہوتا کہ یہ راز وہ اپنے سینے میں دفن کر لیتا۔ میرے اندر چیخیں گھٹ رہی تھیں اور ٹی وی اسکرین سے واہ واہ کا شور بلند ہورہا تھا۔
رت جگوں کو تری روشنی مل گئی
داستان کو مری زندگی مل گئی
میں نے ترے تخیل کو ٹھکرا دیا
ساتھ یاروں کے خود کو بھی سمجھا دیا
آخرِکار تجھ کو بھی جتلا دیا
کس نے چاہا تجھے

اس کے لہجے میں وہی پرانا اعتماد تھا۔ یوں جیسے وہ جانتا ہو کہ اس کا یہ اعتراف مجھ تک ضرور پہنچے گا اور میں اس کی شاعری پر کسی آیت کی طرح ایمان لے آؤں گی۔ میرے لیے یہ فقط ایک نظم نہ تھی بلکہ ایک بھالا تھا جو میری روح کے گھاؤ مزید چیر گیا۔ وہ نمک تھا جس نے نارسائی کے زخموں کی جلن اور بڑھا دی۔ اس نے اپنے شاعرانہ کمال سے آج میرے ماضی کو حال سے جوڑنے والا وہ سنگم توڑ دیا تھا جس پر میں اس کی یادوں میں جذب ہوتی تھی۔ محبت کے آسمان پر ہلکورے لیتے ہوئے اس نے میرے پروں کو نوچ ڈالا۔ اب میں نے جانا کہ اس کی شاعرانہ محبت سے اکثر خوف کیوں کھاتی تھی۔ کبھی ان نظموں پر میں جیتی تھی۔ آج یہی میرا مرقد بن گئیں۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے دھواں دھار رو رہی تھی۔ اس تکیے سے لپٹ کر چیخیں مارنے لگی جو اس کا وجود بنے سالوں سے میری تنہائیوں کو آباد کررہا تھا۔ میں جن لمحوں کی اسیر تھی آج وہ میری مٹھی سے نکل گئے۔

میرے دل سے کیا کیا بولے
ان نینوں کی بھاشا
ان میں ڈھوندوں اپنی خوشیاں
کھوجوں چین اور آشا

میرا ماضی پھر مجھے اپنی اَور کھنیچنے لگا لینے لگا۔ آوازیں صحرا کی چیخوں کی طرح لوٹ لوٹ کر آنے لگیں۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ لیے۔ لیکن ان آوازوں سے جان چھڑانا آسان نہ تھا۔
جب فضا میں ہنسی اس کی بھر جاتی ہے
چھٹ کے کالی گھٹا سب بکھر جاتی ہے
ہر پریشانی جانے کدھر جاتی ہے

لیکن وہ سب جھوٹ تھا۔ سچ تو یہ تھا جس پرابھی وہ دادوتحسین کے ڈونگرے وصول کر کے اٹھا تھا۔ ماضی اور حال کے درمیان گھمسان کا رَن پڑ چکا تھا اور میں شکست خوردہ سپاہی کی مانند بستر پر گر گئی۔ اتنے تھپیڑوں کے بعد آج میں نے اپنی زندگی کا پہلا سبق سیکھا تھا۔ جس سچ سے کسی کی زندگی ختم ہو اس سے جھوٹ بدرجہا بہتر ہے۔
( افسانے میں شامل نظموں کی عنایت کے لیے عثمان جامعی کا شکریہ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).