اسلام سے پہلے کا عرب



تاریخ دانوں کےمطابق اسلام کی آمد سے پہلے عرب دنیا کی کس قسم کی روایات اور تہذیب و کلچر تھا اس بارے میں بہت کم معلومات انسانی تاریخ میں محفوظ ہیں۔ اس کی وجہ تاریخ دان یہ بتاتے ہیں کہ اسلام سے پہلے کے عرب کلچر کی تاریخ بہت زیادہ نہیں لکھی گئی اسی وجہ سے بہت کم معلومات ہیں۔ مورخین کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام سے پہلے کی عرب تہذیب و تمدن نے انسانی تہذیب کی ترقی اور نشوونما میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا تھا۔ اس زمانے میں یونان کی تہذیب انسانی اقدار کی نشوونما میں اہم کردار ادا کررہی تھی۔ یونانی فلاسفرز کے نظریات و خیالات کا بہت بڑا چرچا تھا۔ یونان اس زمانے میں بطور ایک سلطنت کے روپ میں دنیا کے سامنے ظہور پزیر ہوا۔ اس کے ساتھ روم کا بھی انسانی تہذیب کی نشوونما میں ایک قلیدی کردار تھا۔ رومن سلطنت میں ریاست سازی ہورہی تھی ،نئے نئے ریاستی ادارے بن رہے تھے۔ رومن سلطنت بطور ریاست اپنے جوبن پر تھی۔ ریاست کا سیاسی ،معاشی اور سماجی ڈھانچہ استوار ہوچکا تھا۔ مورخین کے مطابق اس زمانے میں فلسطین کی ثقافت سے بھی دنیا روشناس تھی .مگر جزیرہ نما عرب کا تاریخ ،سائنسز اور فلاسفی میں کوئی کردار نہیں تھا۔
اسلام سے پہلے کے عرب کے متعلق اسلامک مورخین اور دانشور یہ کہتے ہیں کہ وہ جہالت کا دور تھا۔ عرب کلچر و ثقافت کو جہالت کی دنیا سے نکالنے میں اسلام نے اہم اور مرکزی کردار ادا کیا۔ اسلام کی آمد کی وجہ سے عرب دنیا کے لوگ جہالت سے علم و فکر کی طرف آئے۔ روشن خیال اور جدید خیالات و نظریات سے آشنا ہوئے۔ مورخین کے مطابق اسلام سے پہلے کے عرب سماج کی بنیاد ظلم ،جبر اور خوف پر مبنی تھی۔ ایک ایسا سماج اور معاشرہ تھا جس میں لوگ مختلف قبائل میں تقسیم تھے۔ ان میں سے ہر قبیلے کا اپنا دیوتا یا دیوی تھی جس کی وہ پرستش کرتے تھے۔

عرب سماج کی کوئی ایک مکمل ریاست نہیں تھی ،مختلف قبائل تھے جو ہمیشہ ایک دوسرے کے خلاف جنگ و جدل میں مصروف رہتے تھے۔ طاقتور قبائل کمزور قبائل کے انسانوں کا قتل عام کرتے اور اس پر فخر کیا کرتے تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے قبائل بھی تھے جو تجارت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ لیکن بنیادی طور پر یہ ایک خانہ بدوش قسم کا کلچر تھا۔ کچھ ایسے بھی قبائل تھے جو زراعت سے منسلک تھے۔ اسلام سے پہلے قبائلی نظام تھا۔ اس وقت بہت سے ایسے لوگ تھے جنہیں عیسائیت کے بارے میں تھوڑا بہت علم تھا۔ کچھ قبائل یہودیت کے بارے میں بھی باخبر تھے۔ وہ عرب جو تجارت کی غرض سے دوسرے علاقوں میں جاتے تھے انہیں دوسرے مذاہب کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ معلوم تھا۔ اسلام سے پہلے کے کچھ عرب قبائل تجارت کی غرض سے یروشلم ،شام اور مصر جاتے تھے ،اسی وجہ سے انہیں شام ،فلسطین اور مصر کی روایات سے متعلق آگاہی حاصل تھی۔ مورخین کے مطابق کچھ عیسائی اور یہودی قبائل بھی عرب سماج کا حصہ تھے۔ لیکن عرب کے عام عوام بت پرست تھے۔

اسلام سے پہلے کی عرب دنیا کے ارد گرد طاقتور ریاستیں قائم تھیں۔ اسلام سے پہلے کے عرب کو دیکھا جائے تو اسلام سے پہلے فارس میں کئی طاقتور ریاستیں ابھریں اور مٹ گئی۔ مورخین کے مطابق پرشیا سلطنت اس زمانے میں بہت طاقتور تھی۔ اس سلطنت کا عرب دنیا پر مکمل غلبہ اور کنٹرول تھا۔ اس طرح دوسری طرف بازنطینی سلطنت تھی۔ اس دور میں بازنطینی اور ساسانی ریاستوں کے درمیان جنگ و جدل بھی ہورہی تھی۔ ان ریاستوں کے اندورنی خلفشار اور جابرانہ نظام کی وجہ سے اسلام بھرپور انداز میں پھلا پھولا۔ بازنطینی اور ساسانی حکمرانوں کی ظالمانہ پالیسیوں کی وجہ سے یہ دونوں ریاستیں کمزور ہوچکی تھی۔ یہاں کے عوام اپنے حکمرانوں سے نفرت کرتے تھے۔ اس ساری صورتحال میں عرب دنیا ان دو طاقتور ریاستوں کے کنٹرول اور قبضے میں تھی۔

مورخین کے مطابق عرب بڑا صحرا تھا جو خوفناک حد تک گرم تھا ،اس لئے یہاں پر عرب لوگوں کے علاوہ کوئی اور آکر آباد ہونے کو پسند نہیں کرتا تھا۔ ان لوگوں کو صحرائی اور خانہ بدوش کہا جاتا تھا ،اس لئے کسی ریاست نے عرب کے صحرائی لوگوں پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کی وجہ شاید یہاں کا سخت اور خشک ماحول اور آب و ہوا تھی۔ دوسرا یہ بھی وجہ تھی کہ عرب کے لوگ بہت غریب تھے جہاں ترقی کا نام و نشان تک نہ تھا خواندگی کی شرح بہت کم تھی۔ یہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں بھی نہیں بناتے تھے۔ پسماندگی اور غربت عام تھی۔ لوگ کچے گھروں میں رہتے تھے۔ یہ اس علاقے کی بات ہورہی ہے جہاں سے اسلام ابھرا۔ شام اور فلسطین کا زکرنہیں ہورہا ،یہ علاقہ تو اسلام سے پہلے بھی ترقی یافتہ تھا۔ میں بات کررہا ہوں حجاز اور سعودی عرب کے صحرائی انسانوں کا جہاں سے اسلام طلوع ہوا۔

مورخین کے مطابق کیونکہ اسلام سے پہلے کے عرب میں قبائلی سماج تھا ،ہر قبیلے کا اپنا بت تھا ،تمام قبائل ایک دوسرے سے جنگ و جدل کرتے رہتے تھے ،اس لئے ان تمام قبائل میں کسی قسم کا کوئی اتحاد نہیں تھا۔ اسی وجہ سے یہ علاقہ ایک مکمل ریاست کی شکل اختیار نہیں کرسکا تھا۔ سال میں ایک ایسا وقت آتا تھا جب تمام عرب قبائل مکہ آیا کرتے تھے۔ شہر کے دروازوں کے باہر اپنا اسلحہ اور ہتھیار وغیرہ رکھ دیتے۔ اس کے بعد کعبہ کے اندر اپنے اپنے بت رکھ دیتے تھے۔ امن و سکون سے ایک دوسرے سے ملتے ،تجارت کرتے۔ اس کے علاوہ ان کے درمیان گفت و شنید بھی ہوتی۔ جب کچھ عرصے بعد یہ سلسلہ ختم ہوجاتا تو اپنے اپنے علاقے میں چلے جاتے اور پھر ان کے درمیان جنگ و جدل کا آغاز ہوجاتا۔ یہ وہ عرب سماج تھا جو اسلام سے پہلے اس طرح کی بدترین صورتحال کا شکار تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).