منشا بم کی گمشدگی اور چند پرانے بدمعاشوں کے قصے


اس شہر بے مثال لاہور میں نصف صدی گزار کر اب ایسی خبروں پر ہنسی بھی نہی آتی۔ میرا ذھن اسی کی دہائی میں کھو گیا۔ مشہور زمانہ ضیا الحقی غیر جماعتی الیکشن تھے۔ شریف برادران وزارت اعلی و عظمی کے لیے کوشاں اور میئر شپ کے لیے ان کے امیدوار میاں اظہر جو گورنر تک پہنچے ان کا حلقہ، علاقے کا مشہور پہلوان باؤ وارث شریفوں کی طرف سے تمام معاملے کا انچارج۔ حلقے میں انتہا کی بدمعاشی ہوئی۔ ردعمل میں ایک نہایت دلیر سمجھے جانے والے لڑکے نے کہا کہ ایسی کی تیسی باؤ کی ہم دیکھ لیتے ہیں۔ اب ذہن میں رہے کہ الیکشن والا دن ہے رینجرز آرمی اور شریفی پولیس، سخت ہدایات کہ پرندہ پولنگ سٹیشن پہ پر نہ مار سکے ان حالات میں مرکزی الیکشن دفتر میں بیٹھے فتح کے نشے میں چور باؤ وارث پہ فائرنگ واقعی کام تھا۔

دراصل باؤ وارث پرانی وضع کا بدمعاش تھا یہ سٹوڈنٹ بدمعاش نئی وضع کے مجرمین تھے لیکن نہایت ہتھ چھٹ دلیر اور پڑھے لکھے، پرانی بدمعاشی کو یہ نئے لوگ تبدیل کر رہے تھے اسی لیے کچھ آج کے ٹاپ ٹین میں شامل ہیں کچھ اسمبلیوں میں ہیں کچھ وزراتوں تک پہنچے۔ بہرحال کچھ پولنگ بوتھ رگڈ ہوئے اس نوجوان نے فورا بدلہ لینے کی ٹھانی اور ایک لڑکے کو کہا کہ بائیک چلاؤ۔ آناً فاناً دونوں نیلی بار کرشن نگر جیسے بارونق چوک میں واقع مین الیکشن آفس کے باہر پہنچے۔ سامنے ہی درجنوں ورکرز میں گھرا پہلوان بیٹھا تھا درجنوں افراد نے دیکھا کہ بائیک پہ پیچھے بیٹھے لڑکے نے آفس کے سامنے آکر، اس سے پہلے کہ مخالف پارٹی کے گن مین سنبھلیں، ڈز ڈز ڈز پورا چیمبر خالی کر کے لڑکے نکل گئے خوش قسمتی سے باؤ وارث اور کچھ لوگ معمولی زخمی ہوئے۔ لیکن“ تاراں کھڑک گئیاں“۔

لڑکے کی شناخت کا سوال ہی نہ تھا ہر کوئی اسے جانتا تھا۔ لڑکے مفرور ہو گئے اور پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بھونچال آ گیا۔ رانا مقبول اور اسرار احمد کی جان پر بن گئی۔ شریفوں کے پریشر کو برداشت کرنا کام تھا۔ پورے علاقے میں افواہ پھیل گئی کے گولی کے آرڈر ہو گئے ہیں۔ ہم محلے دار بھی تھے اور میں تو ٹیکنکلی غنڈہ گردی میں اپنے تئیں پاؤں رکھتا تھا۔ مفرور انجینرنگ یونیورسٹی کا طالب علم لیڈر اور ہمارے بڑے بھائیوں جیسا تھا ہم نے روز پتہ کرنا کہ کیا بنا لیکن سناٹا۔

دو چار دنوں بعد مفرور کا چھوٹا بھائی جو میرا ہم عمر اور دوست تھا ملا۔ میں نے پوچھا بھائی کا کیا بنا اس نے کہا سب ٹھیک ہے ابھی میں نے کھانا دینے جانا ہے تم بھی چلو۔ میں بغیر سوال جواب کیے ساتھ چل پڑا۔ میں سوچ رہا تھا کہ پولیس نے اس پر بہت تشدد کیا ہو گا کیونکہ میاں اظہر بھی اسی جگہ کے تھے پھر ان کا تعلق میاں برادران سے پھر شریف برادران کا شدید پریشر، پھر علاقے میں ساکھ اس کی گستاخی ناقابل معافی تھی لیکن جونہی میں تھانے پہنچا خوشگوار حیرت کا شکار ہو گیا۔ بھائی صاب پرانی انارکلی تھانے کے اوپر بنے کمرے میں تین عدد پلسیوں کے ساتھ بنک کھیل رہے تھے۔ جبکہ تھانے سے روز وزیر اعلی ہاوس رپورٹ کی جاتی کہ مار مار کے ہڈی پسلی ایک کر دی ہے۔

کہانی یہ تھی کہ لڑکے کا بھائی ہاکی کا سابقہ نامور کھلاڑی تھا ایک ڈی ایس پی اس کا ذاتی دوست جس نے اسے بتایا کہ اپنے بھائی کو پیش کر دو ورنہ اس کے انکاونٹر کے آرڈر ہو چکے ہیں۔ پھر تم اسے پیش ہونے کا کہہ رہے ہو ”یہ میری ذمہ داری“ اس افسر نے جواب دیا۔ ایسا ہی کیا گیا یعنی ایک مخلص افسر چاہے تو وزیر اعلی کے احکامات ہوا میں آڑا دے اور وزیر اعلی بھی نواز شریف جیسا اور معاملہ بھی تقریباً ان کے گھر کا ہو۔

کچھ دنوں بعد وہ لڑکے ضمانت پر آ گئے۔ اب سو چیے منشا بم، جس شخص پر اسی پرچے ہوں، علاقے کے گدھے گھوڑے بھی اسے پہچانتے ہوں وہ یوں غائب ہو جائے؟ وہ مفرور ہو جائے، واہ، پتہ کریں کسی مخلص افسر کی پناہ میں نہ ہو۔ مہدی علی بھٹی ماضی کا معروف نام، اپنے علاقے میں استانیوں اور نرسوں کے حوالے سے شہرت پانے والا اور زبان خلق کے مطابق نجانے کتنی جوانیاں تیرہ و تار کرنے والا یہ چھانگا مانگا فیم ایم پی اے، وزیراعلی کی ضرورت تھی۔ موصوف انہی دنوں کسی استانی کے مبینہ اغوا اور قتل میں اخباروں کی زینت اور مفرور تھا اور صوبے کے حاکم اعلی کی پناہ میں تھا۔

پولیس کو ایف بی آئی کی سطح پر منظم کیے بغیر جرم کا سدباب نہ ہوگا۔ اس طرح کے درجنوں واقعات ہیں سوال یہ ہے کہ کیوں؟ شا ید اس لیے کہ سوسائٹی کا معتدبہ حصہ شریفوں کو تسلیم کر چکا ہے کیونکہ مہذب دنیا کے جرم ان کے نزدیک جرم ہی نہی منی لانڈرنگ ٹیکس ہیون چائنہ کٹنگ کمیشن کک بیکس وغیرہ جدید دنیا کے تحفے ہیں اس میں کیا جرم ہے؟ اس طرح کے عناصر پچھلے تیس سال میں مانسٹر بن چکے ہیں۔ ان کے لئے کسی نئی سپیشل فورس کی ضرورت نہی مخبروں کا پرانا نظام بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ گروپوں گروہوں کی صورت میں کام کرنے والے یہ پیرا سائیٹ معاشرے کے لیے زہر ہیں ان کا قلع قمع جدید علم جرمیات کے تحت کریں ورنہ لاہور فا ٹا بننے والا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).