میری بدنامی کے دو قصے


ہندوستان میں تو ایک کہاوت مشہور ہے ” بد سے بدنام برا“۔ یعنی پبلک کی نگاہوں میں کوئی برے سے برا شخص بھی اتنا قابل تعزیر قرار نہیں دیا جاتا، جتنا کہ بری شہرت رکھنے والا۔ یعنی بدنام، اور انگریزی کے ایک مصنف اور ایل الرائے نے کہا ہے،
کہ:۔
” مجھے ان لوگوں کے ساتھ ہمدردی ہے، جو نے نقاب ہو گئے“۔

یعنی پبلک کی نگاہوں میں صرف وہی لوگ مجرم قرار دیے جاتے ہیں، جو بے نقاب ہو جائیں۔ ورنہ غور کیا جائے، تو ہر شخص ہی کسی نہ کسی حد تک، کسی نہ کسی صورت میں گناہگار ہے۔ بد اور بدنام کے سلسلہ میں چند ذاتی واقعات اور تجربات بیان کرتا ہوں:۔

میں کئی برس سے ہر روز کھانے سے پہلے نصف پیگ (یعنی ایک اونس یا نصف چھٹانک ) برانڈی پیتا ہوں۔ اور اکثر ایسا ہوا، کہ میں نے چھ چھ ماہ تک اس کے پینے کا کبھی خیال تک نہ کیا۔ وہسکی، جن، رم یا ٹھرے سے مجھے کچھ نفرت سی ہے۔ گو میرے گھر میں دوستوں کے لئے وہسکی ہمیشہ موجود رہی، مگر میں نے اسے کبھی نہ پیا۔ یعنی شراب پینے کا عادی نہیں ہوں، اور میری زندگی میں کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا، کہ میں شراب خوری کی وجہ سے اپنے حواس سے محروم ہوا۔ حضرت جوش تو مجھے برانڈی کا نصف پیگ پیتے دیکھ کر فرمایا کرتے ہیں، کہ میں شراب کو رسوا کرتا ہوں۔

مگر چونکہ زیادہ شراب پینے والے کئی دوست میرے ہاں آیا کرتے، اور وہسکی پیتے، اکثر حلقوں میں مجھے بھی ان دوستوں کے معیار کا ہی ” پیاک“ یعنی شراب خور قرار دیا جاتا، اور ان حلقوں کو میں چاہیے، کتنا یقین دلاؤں، مگر یہ لوگ کرنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ کئی برس ہوئے مرحوم مسٹرر چھپال سنگھ شیدا وغیرہ کئی دوستوں کے ساتھ میرٹھ سے بذریعہ کار دہلی آ رہا تھا۔ یہ کار میں چلا رہا تھا، اور ایک چھکڑے کو بچاتے ہوئے ایکسڈنٹ ہو گیا، تو ان تمام دوستوں نے جو مجھے شراب خور سمجھتے ہیں، یہی یقین کیا، کہ میں شراب میں بدمست ہو کر اپنی کار خور خود چلا رہا تھا، جو ایکسیڈنٹ ہوا۔ اور بعض دوستوں کے خطوط بھی ملے، جن میں لکھا تھا، کہ زیادہ شراب نوشی کا یہی نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ یعنی میں برا نہ ہوتے ہوئے بھی بدنام کا سزاوار قرار دیا گیا۔

مجھ پر بعض والیان ریاست نے ڈیڑھ درجن کے قریب جھوٹے اور بے بنیاد مقدمات چلائے، اور ان فرضی مقدمات میں ان والیان ریاست کو شکست ہوئی۔ ان مقدمات میں ایک مقدمہ جعلی کرنسی نوٹوں کو اپنے قبضہ میں رکھنے کا بھی تھا۔ اس مقدمہ میں گو ہائیکورٹ نے پولیس کے خلاف بہت سخت ریمارکس کیے، اور مجھے قطعی بے قصور قرار دیا۔ مگر کئی ایک حلقوں میں یہ یقین کیا جاتا تھا، کہ میں فی الحقیقت جعلی کرنسی کی تجارت کرتا ہوں۔

چنانچہ یہ واقعہ دلچسپ ہے، میں جب نظر بندی سے رہائی حاصل کر کے دہلی پہنچا، اور اخبارات میں میری رہائی کی اطلاع شائع ہوئی، تو چند ہفتہ بعد ایک صاحب پشاور سے تشریف لائے۔ میں میز پر بیٹھا اخبار کے لئے مضامین لکھ رہا تھا۔ آپ نے آنے کے بعد کہا، کہ آپ راز میں کچھ بات کہنا چاہتے ہیں، اگر اس راز کو افشانہ کیا جائے۔ میں نے یقین دلایا، تو آپ نے دو جعلی کرنسی نوٹ میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا:۔

” آپ ان جعلی نوٹوں کا اصل نوٹوں سے مقابلہ کر لیجیے، کوئی شخص ان کو جعلی قرار نہیں دے سکتا، کیونکہ یہ بہت بڑے ایک ایکسپرٹ کاریگر نے تیارکیے ہیں۔ آپ کو جتنے نوٹ درکار ہوں، پچاس فیصد کمیشن پر دیے جائیں گے۔ یعنی دس ہزار روپیہ کے اصلی نوٹوں کے تبادلہ میں بیس ہزار روپیہ کے یہ نوٹ ہوں گئے، اور آپ جتنے نوٹ چاہیں، آپ کو مل سکتے ہیں، میں پشاور سے صرف آپ سے ملنے کے لئے آیا ہوں“۔ میں اس شخص کو کیا دیتا۔ میں نے صرف یہی کہا، کہ:۔

” میں اگر چاہوں، تو اسی وقت آپ کو گرفتار کرا سکتا ہوں۔ مگر چونکہ میں آپ سے وعدہ کر چکا ہوں، اور آپ نے مجھے پر اعتماد کیا ہے، میں اعتماد شکنی کا مجرم نہیں ہوتا چاہتا۔ اس لئے آپ مہربانی فرما کر اسی وقت میرے مکان سے چلے جایئے، اور آئندہ پھر کبھی ادھر آنے کا رخ نہ کیجئے“۔

یہ سن کر یہ حضرت جو پشاوری لنگی پہنے، اور مولویوں کی طرح داڑھی رکھے ہوئے تھے، چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد میں ڈیر تک سوچتا رہا، کہ مجھے بدنامی کے اس داغ کو دھونے کے لئے کیا صورت اختیار کرنی چاہیے۔ تبادلہ آبادی سے پہلے میں قریب قریب ہر ماہ لاہور جایا کرتا، اور وہاں صرف ایک روز ہی قیام ہوتا۔ میں لاہور میں عام طور پر ریلوے اسٹیشن کے قریب برگنزا ہوٹل میں قیام کرتا، اور وہاں ہی دوست اور احباب ملنے کے لئے آجاتے۔ ایک بار میں لاہور گیا، تو مسٹر نازش رضوی تشریف لائے، اور باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا، کہ فلم ایکٹرس آشا پوسلے اور اس کے گھر کے کئی لوگ کئی بار آپ کا پوچھ چکے ہیں، اور ملنا چاہتے ہیں۔ ان کا گھر ہوٹل کے بالکل قریب آسٹریلیا بلڈنگ میں ہے۔ میں نے کہا، کہ ابھی لنچ کھانے کے بعد جاتا ہوں۔

آشا پوسلے کے متعلق پوزیشن یہ ہے، کہ آشا کا باپ بھائی ناتھ ربابی خاندان سے تھا۔ ( ربابیوں کو نصف سکھ اور نصف مسلمان کہنا چاہیے۔ یہ لوگ قومیت کے لحاظ سے مسلمان ہیں، مگر گوردواروں میں کیرتن کرنے اور سکھوں کے قریب رہنے کے باعث تہذیب و تمدن کے اعتبار سے ان پر سکھ ازم کے کے اثرات ہیں ) چنانچہ آشا کا دادا، یعنی بھائی ناتھ کا باپ اپنے دہلی کے کے قیام میں روزانہ صبح گو ر دوارہ سیس گنج جایا کرتا۔ بھائی ناتھ گراموفون دہلی میں بطور سازندہ کے ملازم تھے، اور ا ن کی رہائش دفتر” ریاست“ والے ہملٹن روڈ والے مکان کے بالکل قریب تھی، اور اسی بلڈنگ میں ہی صبیحہ کا باپ محمد علی اور ماں بابو ماہئے والی رہا کرتے۔ یہ تمام لوگ کبھی کبھی ملنے کے لئے دفتر ” ریاست“ میں آتے۔ یعنی ان کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے، اور میرے لئے خوشی کا مقام تھا، کہ میں لاہور میں ان لوگوں سے ملتا۔

چنانچہ لنچ کھانے کے بعد میں ان کے مکان پر گیا، جو اس ہوٹل کے بالکل قریب تھا۔ میں جب اس مکان کے قریب گلی میں پہنچا، تو دیکھا، کہ ایک درجن کے قریب فلم زدہ نوجوان لڑکے ادھر ادھر پھر رہے ہیں، اور یہ اس کوشش میں ہی ہیں، کہ کسی صورت سے آشا پوسلے ان کو نظر آجائے۔ میں جب اس گلی میں پہنچا، تو میں نے ان لڑکوں ہی سے پوچھا، کہ :۔
” آشا پوسلے کا مکان کون سا ہے؟ “

میرے اس دریافت کرنے پر ایک لڑکے نے طنز آمیز اشارہ کے ساتھ بتایا، کہ وہ سامنے والا مکان ہے، اور دوسرے لڑکے بھی مجھے دیکھ کر نیم مسکراہٹ کا اظہار کر رہے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا، کہ ان لڑکوں کے خیال میں صرف کالجوں کے لڑکے ہی فلم زدہ نہیں، بلکہ داڑھیوں والے سکھ بھی زخم خوردہ ہیں۔

مزید پڑھنے کے  لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon