اب عمران خان حکومت چلا کر دکھائیں


گزشتہ روز قومی اسمبلی کی گیارہ اور صوبائی اسمبلیوں کی 24 نشستوں پر ہونے والا انتخاب حکمران پاکستان تحریک انصاف کے لئے اچھی خبر تو نہیں تھا لیکن ان نتائج سے وفاق یا پنجاب میں موجودہ حکومتی انتظام میں کسی دراڑ پڑنے یا حکومتوں کو کوئی خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ نہیں ہے۔ یوں بھی پاکستان تحریک انصاف کو اقتدار کی جو ضمانتیں حاصل ہیں ، ان کے ہوتے کسی بھی دوسری حکومت کی طرح اس حکومت کو بھی ضعف پہنچانا ممکن نہیں۔ ملک میں جمہوریت کا جاپ کرتے ہوئے اس حقیقت پسندی کو بنیاد اور سنہرے اصول کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے کہ جمہوریت چلانے کے لئے اسٹبلشمنٹ سے ٹکرانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہئے۔ بصورت دیگر کسی بھی لیڈر کو آصف زرداری اور نواز شریف بناتے دیر نہیں لگتی۔

اس حوالے سے الطاف حسین کا نام لینا اس لئے نامناسب ہوگا کہ انہوں نے جمہوریت کو اپنی شخصی حکمرانی کے لئے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا تھا۔ وہ پودا جن طاقتوں کا لگایا ہؤا تھا، انہیں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا لیکن اس میں الطاف حسین کی غلطیوں اور جارحانہ طرز سیاست کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ کراچی اور حیدرآباد کی مہاجر آبادی الطاف حسین کی صورت میں ضرور ایک مسیحا دیکھتی رہی ۔ اب ان لوگوں کو نئی سیاسی صورت حال سے ہم آہنگ ہوتے اور اس کے مطابق اپنا سیاسی رویہ بناتے کچھ وقت تو ضرور لگے گا۔

سال رواں کے انتخابات میں کوئی سیاسی پارٹی اس سیاسی خلا سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ اگرچہ تحریک انصاف نے کراچی سے بیشتر نشستیں حاصل کی ہیں لیکن یہ کامیابی الطاف حسین سے ’بدظن ‘ ہونے والے ووٹروں کی حمایت کی بجائے مقبولیت کی اس فضا کی مرہون منت تھی جو بوجوہ تحریک انصاف کے لئے پیدا ہو چکی تھی۔ ابھی مستقبل میں اہل کراچی کے سیاسی مؤقف کے بارے میں حتمی رائے دینا ممکن نہیں ۔ حالات کو ہموار ہونے اور مہاجر ووٹر کو الطاف حسین کے صدمے سے جان بر ہوتے وقت لگے گا۔

ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) نے تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کی ہے اور تحریک انصاف کو اپنی ہی خالی کی ہوئی نشستوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کو ملنے والے ووٹوں کی شرح بھی کم ہوئی ہے۔ لیکن اس کی وضاحت کے لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ عام انتخابات کے مقابلے میں ضمنی انتخابات میں دس سے بیس فیصد کم لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے نکلتے ہیں ۔ اس لئے ووٹروں میں کسی پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ ضمنی انتخاب میں اس کی کارکردگی سے نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اگرچہ تحریک انصاف کی وفاق اور پنجاب میں حکومتیں صرف چند ووٹوں کی اکثریت سے ہی قائم ہیں لیکن اس پارٹی کی حکومتوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔

بادی النظر میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف پانچ برس کی مدت پوری کرے گی۔ اس کے لئے البتہ’ہم آہنگی‘ کے نام پر اسٹبلشمنٹ سے وفاداری کا عہد نبھاتے رہنا ہوگا۔ عمران خان نے اگر کسی صورت اس بنیادی تفہیم سے گریز کرنے اور واقعی وزیر اعظم بننے کی کوشش کی تو تحریک انصاف کے لئے سیاسی مشکلات پیدا کرنے میں اتنا وقت درکار نہیں ہو گا جو مسلم لیگ (ن) کو اقتدار سے باہر کرنے کے لئے ضروری تھا۔

تحریک انصاف اور عمران خان کے لئے یہ بات بھی اطمینان کا سبب ہونی چاہئے کہ ملک کی قومی اور پنجاب اسمبلیوں میں اپوزیشن اگرچہ مضبوط اور عددی اعتبار سے طاقت ور ہے لیکن اب تک موصول ہونے والے اشاریوں کے مطابق وہ اپنی اس حیثیت کو قبول کرچکی ہے اور اس سٹیس کو کو توڑنے کی کوئی غیر معمولی کوشش کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ مسلم لیگ (ن) نے نواز شریف کی قید کے بعد اپنے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی گرفتاری پر بھی کسی احتجاجی تحریک شروع کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس لئے مستقبل قریب میں بھی اس پارٹی یا اپوزیشن کی کسی دوسری پارٹی کی طرف سے احتجاج کی ایسی سیاست کا کوئی امکان نہیں ہے جو سڑکوں پر مظاہروں کی صورت میں دیکھنے میں آئے۔ یہ صورت حال بھی حکمران جماعت کے لئے اطمینان کا باعث ہونی چاہئے۔ اس لئے ضمنی انتخابات کے بعد اب تحریک انصاف اور اس کی قیادت کو ہیجان اور اضطرار کی اس کیفیت سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے جو اقتدار سے کسی بھی لمحے محرومی کی کے خوف کی وجہ سے اس پر طاری رہتا ہے۔

تحریک انصاف اور عمران خان کو اب یہ ثابت کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ انہیں واقعی یہ یقین ہو گیا ہے کہ بالآخر انہیں حکومت مل چکی ہے اور وہ اس ملک میں مقررہ حدود کے اندر فیصلے کرنے کے مجاز بھی ہیں۔ کیوں کہ 18 اگست کو حکومت سنبھالنے کے بعد سے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے کوئی ایسا اشارہ نہیں ملا کہ وہ اب حکومت کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد عمران خان کی تقریر سے لے کر ضمنی انتخاب سے ایک روز پہلے وزیر اطلاعات کی پریس ٹاک تک اس بات کا اظہار نہیں ہؤا کہ تحریک انصاف حکمران جماعت ہے ۔ ان کی باتوں سے یہی لگتا ہے کہ دوسری پارٹیوں اور قائدین پر نکتہ چینی کے ذریعے وہ ابھی تک اختیار حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

باقی اداریہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali