ممی اور سپر ممی کی طاقت


میں ہمیشہ ہر بہانے سے آپ سے کہتی ہوں کہ سپر ممی بننے کی کوشش نہ کریں۔آپ ایک تھک جانے والی، خود کو محبت سے ،رعایت سے اور طریقے سے چلائے جانے کی قابل انسان ہیں۔مشینیں اور ربوٹ تک ایک حد تک کام کرتے ہیں انسان تو پھر انساں ہے ۔مگر ایک مقام ہے جہاں پر آ کر لازماً ممی ایک سپر ممی بن جاتی ہے۔ایک ایسی جگہ جہاں پہنچ کر ممی معجزے کر نے کا قابل ہو جاتی ہے،خدا اسکے ہاتھ میں بہت سی طاقتیں اور بہت سے اختیارات دے دیتا ہے۔ایک مقام جب خدا کے بعد سب کچھ صرف ایک ماں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔کب؟ یہ بتانے کے لئے اپنے دل اور ذندگی کے کچھ بہت سے نہاں خانے کھول کر دکھانے پڑئیں گے۔شاید لکھتے ہوئے میں جذباتی بھی ہو جاؤں،بات کو انجانے میں وہاں تک لے جاؤں جہاں تک جانے کی ضرورت نہیں،مگر ممی کی بے بسی سمجھ کر نظر انداز کیجئے گا کہ آپ کو علم ہے کہ اس دنیا میں صرف اک وجود اور رشتہ ایسا ہے جو ساری عمر صرف اور صرف جذبات کے ایندھن پر چلتا رہتا ہے اور وہ ہے ماں کا! ایک تو عورت کا وجود جو آدھی طاقت جذبات سے لیتا ہے اور پھر ماں کا مقام۔۔۔تو ماں کے وجود میں سوائے جذبات اور محبت کے وصولی کے لئے اور کچھ بھی رہ نہیں جاتا۔

تو ممی اک سپر ممی کب بنتی ہے؟اسکے لئے آپ کو کچھ سنانا پڑے گا۔محمد سال ڈیڑھ سال کا تھااور موسمی بخار سے ڈسٹرب تھا۔میں دو اوپر تلے کے بچوں کے ساتھ جاگ جاگ کر تھک چکی تھی اس لئے محمد کو کاٹ میں سلاتی تھی۔(یہ کسک ساری عمر رہے گی کہ کیوں سلاتی تھی.اس پر بھی کبھی بات کروں گی)فاطمہ اور آمنہ کو ساتھ سلاتے میں کبھی نیند برابر نہ لے سکی۔انکے گہری نیند میں جانے تک میں سو نہ پاتی تھی،انکی ہر جنبش پر اٹھ اٹھ کر دیکھتی تھی۔اس طرح ان کی ہر سانس اور دھڑکن کی پہچان تو ضرور رکھتی تھی مگر خود کو تھکا چکی تھی اور محمد کی بار کچھ اپنی ذہنی صحت کی خاطر اور کچھ محمد کی اک متواذن تربیت کی خاطر اسے کاٹ میں سلایا۔اور مجھے یہ اعتراف کرنے دیں کہ سب سے اہم عنصر وہ پرسکون نیند تھی خواہ وہ کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو جن سے میں پچھلے کئی سالوں سے محروم تھی۔تو محمد کو رات میں ہلکا بخار تھا اسے دوائ دے کر سلانے کی کوشش میں رات بھر گزار دی۔وہ سو نہ سکا۔میں دن بھر کے کام کاج اور بچوں سے تھکی ہوی اور محمد جیسا کاٹ میں اکیلا پڑ کر سو جانے والا بیبا بچہ اس رات بھر نہ سویا۔میں نے کبھی لوریاں دئیں،کبھی جھولے جھلایے،کبھی اسے ڈانٹا اور کبھی اپنے بال نوچے مگر وہ بیبا بچہ سو کر نہ دیا۔میں خود تھکن سے بے حال،ماؤف دماغ یہ نہ سوچ سکا کہ یہ بیبا بچہ دوائی کے باوجود آخر سو کیوں نہیں پا رہا۔۔کیسے سمجھ پاتی آخر اک خاص مدت کے بعد انسانی دماغ بھی مناسب کام کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔

صبح فجر کے وقت میاں صاحب جاگے تو وہ محمد کو اٹھا کر بیڈ روم سے باہر لے گئے کہ میں دیکھتا ہوں تم زرا سستا لو۔میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ بلآخر بے فکر ہو کر بستر پر گر پڑی ۔مگر ابھی مجھے آدھ گھنٹہ بھی نہ ہوا تھا کہ میاں نے گھبرائی آواز میں پکارا کہ دیکھو محمد کو کیا ہو گیا۔اس گھبرائ پکار میں کچھ ایسا صور تھا کہ میں نیند کی آخری حد سے بھی نکل کر چھلانگ لگا کر بھاگی۔کبھی کبھی سمجھ آ جاتی ہے انساں کو کہ صور کیسے پھونکا جائے گا۔محمد کی گردن ڈھلک گئی تھی اور وہ تقریباً بے ہوش تھا مگر تھوڑی تھوڑی دیر میں اسے جھٹکے لگ رہے تھے ۔(ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک سو چار بخار کی وجہ سے یہ حالت ہوئی مگر اس وقت اس حالت کی حقیقت اور وجہ سے میں قطری لاعلم اور بے خبر تھی)۔بے وزن ہوئے محمد کو میں نے فوراً بازوں میں اٹھایا اور میاں سے کہا ہسپتال۔دونوں بچیوں کو بستروں سے نکال کر گاڑی میں ڈالا کہ ہم پردیس میں تنہا رہنے والوں کے پاس بچوں کو گھر چھوڑ کر جانے کی کوئ آپشن نہیں ہوتی۔میں نے بھاگتے دوڑتے فیڈر بنا کر ہاتھ میں پکڑا اور اسی رات کے پہنے کپڑوں میں شلوار کے اوپر ٹی شرٹ کے ساتھ اک ڈوپٹہ لپیٹا اور بے ہوش محمد کو گود میں لئے ہسپتال کے لئے نکلے۔میاں صاحب گاڑی چلا رہے،رات بھر کا تھکا بے ہوش محمد میری گود میں ،اور آدھ گھنٹہ کا ہسپتال کا فاصلہ۔۔۔۔اک کٹھن آزمائش تھی۔میری آنکھیں ضرور بھری تھیں مگر محمد کو میں نے سینے سے لگا رکھا تھا اسکا منہ چومتی اور دعائیں پڑھ پڑھ اس پر پھونکتی رہی۔دل کو اک طاقت کا احساس تھا کہ میرا بچہ اس وقت سب سے مضبوط ہاتھوں میں ہے۔اک ماں سے بڑھ کر مضموط ہاتھ اس دنیا میں اور کونسا ہو سکتا تھا۔میں ماں ہوں جسکی دعا تقدیر بدل دیتی ہے،جسکا اٹھا ہاتھ اس زمین کا رب کبھی نہیں جھٹلاتا ۔اس وقت میں اک سپر ممی تھی۔اور میں بے ہوش محمد سے بار بار کہہ رہی تھی۔

it’s ok my sweetheart!

You are fine!!

ہاں مجھے کہیں لگتا تھا کہ میرے الفاظ کہیں محمد کو سنائی دیتے ہیں۔اور میرا رونا دھونا اور فکر مندی بھی اسکو سمجھ میں آئے گی۔تو مجھے رونا نہیں تھا۔اسے ممتا کا لمس،اسکی محبت اور اسکے ہاتھوں اور دعا کی تاثیر دینے تھی۔میں یہی کر رہی تھی۔وہ زرا سا ہلتا پھر بے ہوش ہو جاتا۔۔۔اور وہ آدھ گھنٹے کا طویل ترسفر تھا۔۔۔۔

ہسپتال کی ایمرجنسی میں ڈاکٹر نے محمد کو اک انجیکشن دیا اور ہمیں تسلی۔۔۔اور اک دوسرے ہسپتال جانے کا مشورہ دیا چونکہ اس قریبی ہسپتال میں ہمارا انشورنس کارڈ چلتا نہ تھا۔تو اس سے پہلے کہ محمد کا مکمل ٹریٹمنٹ ہوتا اسے ڈرپس لگتیں اور وہ بہتر ہوتا کم سے کم پینتالیس منٹ کا ایک اور سفر تھا۔۔۔۔اور اس سفر میں اللہ جانے مجھ میں ایسی ہمت کیسے آئی تھی کہ میں سب سے زیادہ مضبوط اعصاب اور قوت فیصلہ کا مظاہرہ کرتی،بے ہوش بیٹے کو گود میں لیے آگے آگے بھاگتی جاتی تھی۔اس وقت میرے محمد کو ایک سو چار بخار سے جھٹکے لگ رہے تھے اور میں حوصلے اور برداشت میں اک سپر ممی تھی!مجھے نہ اپنے لباس کی فکر تھی نہ اپنے آنسوں کی نہ دبیئ کے جدید شہر کے آس پاس پھرتے لوگوں کی محض اپنے بیٹے کی۔

اللہ کا شکر ہے کہ اس لمبے سفر کے باوجود اللہ نے میرے بچے کی حفاظت کی اور مجھے اتنی طاقت دی کہ میں اسکی حفاظت کر سکوں۔یہ پورا دن محمد نے ہسپتال اور میں نے اسکے سرہانے اسے چومتے،دعائیں مانگتے اور پڑتے گزارا ۔جب محمد بالکل ٹھیک ہو کر ہسپتال سے فارغ ہوا تو احساس ہوا کہ شلوار کے اوپر ٹی شرٹ تھی اور یہ بھانت بھانت کے رنگ برنگے لوگوں کا شہر۔۔مگر میرے بچے سے بڑھ کر کیا اس دنیا میں قیمتی کچھ اور ہے؟ فارمیسی،گھر اور بچیوں کی دیکھ بھال کی زمہ داری میاں صاحب کی تھی۔اور اس ایک دن اور اسکے بعد کتنی بار وہ دن وہ لمحے یاد کر جانے کتنی بار روئ یہ ممی،اور خود کو کیسے کیسے نہ کوسا کہ کیوں نہ سمجھ سکی کہ دوا کے ساتھ بھی بچہ سو کیوں نہیں رہا،کیسے بن گئی ایسی ظالم ماں کہ اسے ڈانٹتی رہی۔جب جسم اور دماغ اپنا انسانی کام کا وقت پورا کر چکتے ہیں تو ضرور تھک جاتے ہیں اور وہ کچھ کر گزرتے ہیں جو وہ ہوش و حواس میں کرتے ہوئے دس بارسوچیں۔ہم ماؤں کی گلٹ، اور محبت ،ہمارے دکھ!جو کچھ بھی کر لو پھر بھی دل یہی سوچ سوچ روتا ہے کہ اچھی مائیں نہ بن سکیں ہم۔

وہ دن اور آج کا دن تھرمامیٹر ہمیشہ میرے بیگ میں رہا اور گھر کے ہر کمرے میں الگ الگ!!! ٹیمپریچر 102 کو چھوا اور میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ محمد کی طرف متوجہ ہو گئی،دوائی ،ڈاکٹر سب کچھ، جب تک کہ درجہ حرارت نارمل نہ ہو جائے اور جب تک کہ وہ چھ سال کا ہو کر خطرے کی حدود سے نکل نہ گیا

یہ مجھے خیال آیا جب کل میری دوست نے مجھے بتایا کہ اسکے چھوٹے بیٹے کو ہیضہ ہے اور وہ کل سے ہسپتال میں ہے۔تو سب سے پہلی بات جو میں نے اس سے کہی وہ یہی تھی کہ حوصلہ رکھنا!۔ماوں کی محبت اور حوصلے سے بچے جلد صحت یاب ہو جاتے ہیں۔

بیمار بچے کو ماں کی جپھی ایک جادو ہی کی طرح لگتی ہے،کمزور اور مشکل میں پڑے بچے کے لئے ماں کی پپیاں اک اسیر نسخہ سے بڑھ کر کام کرتی ہیں سب سے بڑھ کر رب کی طرف سے ماں کو دیا ہوا اختیار۔۔کہ اسکی دعا تقدیر بدل سکتی ہے۔بچوں کو ڈانٹنا،ڈپٹنا،،پیار کرنا،روٹھنا منانا سب چلتا ہے مگر جب بچہ بیمار ہو تو اپنے اعصاب کو ہمیشہ کنٹرول میں رکھیں۔یہ یقین رکھیں کہ آپکے لمس میں،وہ طاقت ہے جو ڈاکٹر کے انجیکشن میں بھی نہ ہو،آپکا پیار اورتوجہ،آپکی ہمت اور حوصلہ ہی آپکے بچے کو صحت دے سکتا ہے۔

میں ایک اچھی ماں نہیں اک مضبوط عورت بھی نہیں۔میں بہت کمزور سی ہستی ہوں مگر ماں کا رتبہ کبھی کبھی مجھ میں وہ بجلیاں بھر دیتا ہے کہ پھر میں خود کو بھی پہچان نہیں پاتی۔یہ مدر ہڈ motherhood میکانزم کا شاید اک خودکار حصہ ہے جو ہم سب ماؤں میں ممی بنتے ہی خود بخود کام کرنے لگتا ہے۔اور یہ مدرہڈ کا جادو ہم سب ماؤں میں اسی طرح کام کرتا ہے کسی میں کچھ کم کسی میں کچھ ذیادہ۔

تو اپنے بچوں کی طاقت بنیے۔آپ کے ہاتھ میں جو جادو کی کنجی ہے وہ اس دنیا میں اور کسی کے پاس نہیں۔

پہلے ایک انسان کی زندگی ،تعلیم تربیت خدا نے آپ کے ہاتھ میں رکھ دی کہ اسے جو چاہے بناییں۔پھر جہاں پر ہماری طاقت اور شعور کے سانس پھولنے لگتی ہے وہاں رب یہ اختیار ہماری دعاؤں میں ڈال دیتا ہےکہ ہم جو چاہے جتنا چاہے اپنے بچوں کی نیا پار لگا لیں۔آپکا بچہ غصہ کرتا ہے،ضد کرتا ہے،دوست نہیں بنا پاتا،ڈھنگ سے پڑھتا نہیں، غصیلا ہے،اسے کوئ خدانخوستہ ذہنی جسمانی عارضہ ہے،تو ہاتھ اٹھائیں۔جتنا ممی کا بچہ مشکل میں اتنی طاقت اور اختیار ممی کے ہاتھ میں ،اسکی دعا میں، اسکے عمل میں!۔ہمت کریں،آگے بڑھیں،اپنے بچوں کی مدد کریں۔اور جہاں طاقت ختم ہو جائے وہاں دو چار طویل سجدے کریں اپنے رب کو۔تب ہو گی آپکی ہر مشکل آسان لمحوں میں۔جب مائیں سجدے میں گر جائیں تو خدا ضرور سنتا ہے۔آپ سپر ممی ہیں اس لئے نہیں کہ آپ دس لوگوں کا کام اکیلے کرتی ہیں۔اس لئے کہ جو طاقت آپ کے پاس ہے وہ دس ہزار لوگوں کے پاس بھی نہیں۔ممی ہونے کی طاقت!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).