چالو بیانیوں پر قائم حکومتیں


حکومتیں مقبول اپنے اقدامات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ لیکن وہ سیاسی قوتیں جو چالو بیانیوں یا عمومی رائے عامہ کو برانگیختہ کر کے اقتدار میں آتی ہیں ان کے لیے اپنے ہی بچھائے ہوئے جال سے نکلنا مشکل ہوتا ہے اور ان میں ایسے اقدامات لینے کی ہمت نہیں ہوتی جو دورس اثرات کے حامل ہوں اور جنہیں زیادہ دیر تک یا د رکھا جا سکے.

یہ چیلنج دنیا بھر میں ان تمام حکومتوں کو درپیش ہے جو چالو بیانیوں اور بلند و بانگ دعوے کر کے اقتدار میں آئی ہیں۔

ان تمام حکمران جماعتوں میں یہ خصوصیت مشترک ہے کہ تیزی سے پھیلتی ہوئی مڈل کلاس کے معاشی‘ نظری اور سماجی اپروچ کو برانگیختہ کر کے اقتدار میں آئی ہیں اور ان کا نظری وژن محدود قومیت کا تصور کنزویٹو‘ سماجی رویہ دوہرا اور معاشی پالیسیاں پاپولر اقدامات پر مشتمل ہوتی ہیں۔

مختلف علاقوں اور خطوں میں ان کے اپنے پس منظر کے مطابق انہیں فارائیٹ‘ ریڈیکل۔ کنزرویٹو یا پائیر نیشنلسٹ (قومیت کا انتہائی تصور) حکومتیں یا جماعتیں کہا جاتا ہے۔ ان میں ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکہ میں حکومت‘ بھارت میں مودی سے لے کر ہنگری میں وکٹر اور بان ‘ چلی ارجنٹینا ‘ پولینڈ ‘ اٹلی ‘ آسٹریا میں قوم پرستوں کی اتحادی حکومتیں سلووینا میں حانبز جانسا اور برازیل میں بلوسونیرو کی حالیہ کامیابی لاطینی امریکہ میں بھی فارائیٹ کی پیش قدمی جاری ہے۔

ایشیا یورپ اور افریقہ کے کئی ممالک میں ایسی جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے اور حالیہ انتخابات میں دوسری یا تیسری جماعت کے طور پر سامنے آ رہی ہیں۔ لاطینی امریکہ میں فار رائیٹ یا قوم پرستوں کی پیش قدمی کو ٹرمپی فیکشن (Trummfication) کا نام دیا جا رہا ہے۔

یہ بدلی ہوئی دنیا ہے اور اسے بدلنے میں کاروباری گلوبلائزیشن کا بڑا ہاتھ ہے جس کے باعث اشیاء commodities اور فیشن کے پھیلائو سے ایک ثقافتی تغیر رونما ہوا ہے۔صارف کی معیشت مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔

متوسط طبقے کا پھیائو ہوا ہے جو ایک طرف تو اشیا اور سہولتوں کا اسیر ہوا ہے اور اس کی جدوجہد کا محور ان کا حصول رہ گیا ہے اور ان کے حصول میں ناکامی کا ذمہ دار وہ اپنی خواہشات سے زیادہ دیگر طبقات خصوصاً اشرافیہ اور حکمران طبقے کو سمجھتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا تعصب بیورو کریسی اور سروسز سے منسلک شعبہ جات کی طرف کم ہے‘ جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام شعبے خواہ وہ عسکری ہوں غیر عسکری یا کارپوریٹ ان کی افرادی قوت مڈل کلاس سے دستیاب ہوتی ہے۔

اس طبقے کی خواہش کے مطابق ایک نیا میڈیا بھی وجود میں آ رہا ہے خود یہ طبقہ سوشل میڈیا پہ متحرک ہے اور مرکزی دھارے کے میڈیا کو متاثر کرتا ہے اور مرکزی میڈیا پر وہی دیکھنا سننا چاہتا ہے جو سماجی میڈیا پر مقبول رجحان ہے۔

یعنی یہ اپنا پراپیگنڈہ خود پیدا کرتا ہے اور خود ہی اس کا شکار ہو جاتا ہے .

یہ طبقہ تنوع اور مختلف شناختوں سے خائف ہے‘ نئے آنے والوں کے لیے منفی جذبات ان میں عام ہیں پاکستان میں بھی افغان پناہ گزینوں اور بنگال کے پس منظر کے پاکستانی شہریوں سے مخاصمت کے جذبات اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کئی متنوع معاشروں جیسے بھارت اور انڈونیشیا میں اندرونی مہاجرت کو بھی ناپسندیدگی سے دیکھا جاتا ہے اور متوسط طبقہ اسے نئے آنے والوں کو پہلے سے محدود معاشی مواقعوں کو مزید کم کرنے کا سبب سمجھتا ہے۔

ان حالات اور ماحول میں قوم پرست یا ریڈیکل جماعتیں عوامی رائے کو برانگیختہ کر کے اقتدار میں تو آ جاتی ہیں لیکن انہیں مسلسل ایک دو دھاری تلوار پر چلناپڑتا ہے انہیں اپنے حامی حلقے کے لیے پروپیگنڈہ بھی پیدا کرنا ہوتا ہے اور ایسے اقدامات بھی اٹھانا ہوتے ہیں جس سے ان کا اعتماد باقی رہے۔

امریکہ میں ٹرمپ اور بھارت میں نریندرا مودی کے علاوہ بیشتر قوم پرست رہنما معاشی میدان میں خاص کارکردگی دکھا سکے ہیں جبکہ امریکہ اور بھارت میں بھی ان کی معاشی پالیسیاں مسلسل تنقید کی زد میں ہیں اور ان کے دیرپا اثرات کے حوالے سے رائے منقسم ہے۔

پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو عمومی معنوں میں قوم پرست حکومت تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن عمران خان کی اپنی شخصیت اور جس قسم کی طرز حکمرانی وہ متعارف کروا رہے ہیں ان میں اور پاپولر قوم پرست حکومتوں میں بہت سی مشابہتیں بھی پائی جاتی ہیں۔

عمران خان کھیلوں سے سیاست میں آئے ہیں جبکہ بیشتر قوم پرست حکمران کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا ان کی قریبی مشیر کاروبار سے وابسطہ ہیں انہوں نے سیاست میں کارپوریٹ مارکیٹنگ کے رجحانات متعارف کروائے ہیں۔

عمران خان نے بھی سیاسی نعروں کو اسی سطح پر استعمال کیا ہے اور اپنے لیے مقبولیت پیدا کی ہے۔ زیادہ تر قوم پرست رہنما ’’امریکہ پہلے‘‘ ’’ہنگری پہلے‘‘ جیسے نعرے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں جنرل مشرف ’’پاکستان پہلے‘‘ کا نعرہ استعمال کر چکے ہیں عمران خان نے اس سے آگے بڑھ کر’’نئے پاکستان‘‘ کا نعرہ دیا۔

لیکن امریکہ اور یورپ میں یہ نعرہ ’’انٹی امیگرنٹس‘‘(پناہ گزین) مخالف‘ جذبات کا آئینہ دار ہے۔ عمران خان کا نئے پاکستان کا سیاسی نعرہ ان کے باقی ہم عصروں سے صرف اتنی مسابقت رکھتا ہے کہ وہ اسے کرپشن اور کرپٹ ٹولے سے پاک پاکستان کے لیے استعمال کرتے ہیں ان کے سیاسی‘ سماجی اور معاشی وژن میں اس کی کوئی زیادہ حیثیت نہیں ہے۔

قوم پرست حکمران عوامی جذبات سے کھیلتے ہیں اور نسلی مذہبی اور لسانی تفریق کو گہرا کر رہے ہیں اگرچہ عمران خان اس طرح کے گھنائونے بیانیوں کی تشکیل میں شامل ہیں لیکن شدت پسند مذہبی گروہوں کی طرف ان کا نرم رویہ پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لیے وہی خطرات پیدا کر رہا ہے جو بھارت میں مودی کے ہندو قوم پرستوں کی طرف جھکائو کے باعث مسلمانوں‘ کرسچن اور دیگر اقلیتوں کے لیے ہیں۔

عمران خان اور ان کے معاصر قوم پرست رہنمائوں میں البتہ ایک چیز بہت زیادہ مشترک ہے وہ سوشل میڈیا کا ڈپلومیسی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہے۔ ٹیوٹر کا استعمال اس میں نمایاں ہے۔ جہاں ان کے بیانات ایک خاص ردعمل پیدا کرتے ہیں اور بیشتر معاملات میں ان کی مخالف قوتیں اپنے ردعمل سے اپنی کمزوریوں کو نمایاں کرتی ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا کا استعمال انہیں روزانہ کی بنیاد پر اپنی ترجیحات میں نظرثانی پر مجبور کرتا ہے اور دیرپا اقدامات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتا ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والا ردعمل اور مشاورت ایک ماہرانہ فورم اور اسپیشلائزڈ ادارے کا متبادل نہیں ہو سکتی۔

بیشتر قوم پرست رہنمائوں کے فیصلے پختہ نہیں ہوتے اور یہی عمل ان کی اپنی مقبولیت کے لیے خطرات پیدا رہا ہے۔ یہ نظری سیاست کا دور نہیں ہے اور نہ ہی یہ آئیڈیل سیاسی نظام کے لیے مناسب ہے۔ ایک اتھل پتھل ہے جس میں سیاسی راہنمااستحکام کی تلاش میں ہیں ایک ایسا استحکام جس کے وہ خود دشمن ہیں۔

چالو بیانیوں پر اپنی سیاست تعمیر کرتے ہیں اور اس سے نظام حکومت چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

بشکریہ تجزیات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).