عمران خان کی حکومت سے عوام کو اتنی توقعات کیوں ہیں؟


یوں تو نئی حکومت کا ابھی ہنی مون پیریڈ ہی ہے لیکن حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد سے جس طرح اس حکومت کو تنقید نما احتساب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی مثال ماضی میں کم از کم پاکستان میں نہیں ملتی۔

اس سارے معاملے میں عمران خان کا کردار اس طرح ہے کہ وہ جدید دور میں پاکستان کے شاید واحد لیڈر ہیں جنہوں نے ملک کے پڑھے لکھے مڈل کلاس عوام کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ وہ لوگ جو کبھی اپنے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا کرتے تھے انہوں نے 2013 کے عام انتخابات میں پہلی بار حق رائے دہی استعمال کیا۔ کیونکہ جس طرح وہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی حکومتی پالیسیوں پر تنقیدی نشتر برساتے تھے اس سے عوام نے ان بار بار کی آزمائی ہوئی دونوں جماعتوں کو چھوڑ کر عمران خان کو اپنا نجات دہندہ سمجھ لیا۔

موجودہ وزیراعظم اور اس وقت کے چئیرمین پاکستان تحریک انصاف پاکستان کے تمام مسائل کا حل صرف کرپشن کے خاتمے کو سمجھتے تھے، اس بات نے ان دونوں جماعتوں کے ستائے ہوئے عوام کو یہ امید دلا دی کہ تحریک انصاف کی حکومت آتے ساتھ ہی اس ملک کو تمام مسائل سے نجات دلا دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی کوئی عوامی (یا حکومتی) نمائندہ پروٹوکول لینے یا کسی بھی محکمے میں سیاسی مداخلت کا مرتکب ہوتا ہے اسے فوراً احتساب کی نسبتاً نئی دریافت شدہ قسم یعنی سوشل میڈیا احتساب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ادھر کوئی واقعہ پیش آیا نہیں، اُدھر فیس بکی جانباز اگلے پچھلے حساب چکتا کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ورنہ پچھلے دور حکومت میں خصوصاً پنجاب حکومت کی طرف سے ایسی ایسی سیاسی مداخلت دیکھنے میں آئی ہے کہ خدا کی پناہ! اور قائم علی شاہ کی سرپرستی میں قائم سندھ حکومت کی سیاسی مداخلت پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے بالخصوص سندھ پولیس ان حضرات کے گھر کی باندی رہی اور اب بھی ہے۔

پاکستانی عوام کو یہ فرق بہت اچھی طرح سے جاننا ہو گا کہ ملک چلانا ایک واحد ادارہ یا فیکٹری چلانا نہیں ہے بلکہ ملک چلانے کے لیے تمام اداروں، شہریوں اور حکومتی معاملات کو ایک ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے اور خاص طور پر پاکستان جیسے مشکل ملک کو، جہاں بیرونی معاملات کو بھی اتنی ہی اہمیت دینا پڑتی ہے جتنی کہ اندرونی معاملات کو۔ اور اکثر اوقات اندرونی معاملات سے بھی زیادہ۔ چنانچہ عوام کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کم از کم وہ اس نوزائیدہ حکومت کو جس کا وفاقی حکومت میں یی بالکل پہلا دور ہے، ایک سال کا عرصہ تو دیں کہ وہ ان پالیسیوں کو کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد ہو کر نافذ کر سکیں جن کو وہ ملکی مفاد میں بہتری لانے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کی طرف سے ایسا احتسابی رویہ ایک مثبت طرزِ عمل ہے اور یہ حکومت میں احساس ذمہ داری جگائے رکھنے کے لیے بہت ضروری بھی ہے لیکن عوامی شعور اس حد تک بھی نہیں ہونا چاہیے کہ یہ اس سے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا محسوس ہو۔

میرے پیارے پاکستانیو! جب آپ زرداری حکومت جیسا بدترین دور حکومت گزار سکتے ہیں تو کیا عمران خان کو صرف ایک سال کی مہلت بھی نہیں دے سکتے کہ وہ اپنی پالیسی نافذ کر سکے؟ کیا آپ کو زرداری حکومت کا کوئی ایک بھی مثبت کارنامہ یاد ہے؟ کیا ہمارے پاس کم از کم موجودہ صورتحال میں عمران خان سے بہتر کوئی آپشن موجود ہے؟
اس لیے براہ کرم کچھ دیر انتظار کیجئے، پھر یہی حکمران ہوں گے اور یہی ہم عوام۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).