تبدیلی سرکار کا ایک پروانہ ورکر آج کہاں کھڑا ہے؟


کسی بھی نئی سیاسی جماعت کی طرح پاکستان تحریک انصاف کا نقطۂ آغاز بھی تبدیلی کا نعرہ ہی تھا۔ کسی بھی نئی سیاسی جماعت کی بنیاد ہی درحقیقت اس امر کا ثبوت ہے کہ سیاسی میدان میں کوئی خلا موجود ہے جس کا پُر کیا جانا ضروری ہے۔ کچھ چیزیں جو ہورہی ہیں، نہیں ہونی چاہیے اور کچھ چیزیں جو کہ نہیں ہورہی ہیں، ہونی چاہیے، کچھ چیزوں کو جڑ سے اکھاڑنا ہے، کچھ کی بنیاد رکھنی ہے اور کچھ ایسی ہیں جن کی اصلاح کرکے انہیں بہتر کرنا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کو البتہ یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ایک لمبے عرصے تک تبدیلی کے نعرے سے استقامت کے ساتھ جڑی رہی اور خواہ کتنی ہی خوار ہوئی روایتی سیاست سے اپنے آپ کو دور ہی رکھا۔

اس تمام عرصہ میں پی ٹی آئی اپنے قائد کے زیرِ اثر اس بات کا کماحقہُ ادراک نہیں کر سکی کہ ایک نظام کو تبدیل کرنے کے لئے اس کو سرے سے اکھاڑا نہیں جاتا بلکہ اس کے اندر گھس کر اس کا حصہ بن کر ہی اسے تبدیل کرنے کا آغاز کیا جاتا ہے۔ تبدیلی کاجذبہ بہت بڑی طاقت ہے لیکن صرفجذبہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ مسلسل جدوجہد مسلسل سوچ بچار کا نام ہے۔ یہ جوشِ جنون کے ساتھ ساتھ حکمت عملی کا تقاضہ بھی کرتی ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی۔ غور وخوض سے امکانات کے در وا ہوتے ہیں، امکانات کو حقیقت میں بدلنے کے لئے پیہم جدوجہد۔ لیڈر آنے والے زمانوں کی خبر رکھتا ہے، اسے ہم اپنی بدبختی کے سواء اور کیا نام دے سکتے ہیں کہ ہمارے لیڈرز لمحہ موجود کے تقاضوں کا ادراک بھی نہیں کر پاتے۔

گڈ گورننس پاکستان کا مسئلہ رہا ہے ہماری مین سٹریم سیاسی پارٹیوں کی ناکامی کا لازمی نتیجہ تھا کہ تیسرے قوت لازماً ابھرے گی۔ تیسری قوت ابھری ضرور، دھیرے دھیرے رنگ جمانے میں کامیاب بھی ہوئی اور جیسے تیسے پہلی قوت بھی بن گئی لیکن ان تمام عرصہ میں دلفریب نعرے ہی بیچے گئے، نظر اقتدار کے سنگھاسن پر تھی، مسائل کو سمجھنے اور ان کا حل تلاشنے میں وقت بالکل ضائع نہیں کیا گیا۔ جذبات کی رو میں بہہ کرجذبات سے کھیلا گیا۔ نتیجہ؟

جس کو چپراسی رکھنے کے روادار نہیں تھے، ان کو فرسٹ لائن اٹیک کے طور پر کھلایا گیا جو اب ٹاپ آرڈر میں بیٹنگ کررہے ہیں، جنہیں چور ڈاکو کے سوا کسی اور نام سے کبھی پکارا ہی نہیں ان ہی سے ٹیم کی تشکیل کی گئی۔ جس اقدام سے خود کشی کو بہتر جانا گیا، زندہ رہتے ہوئے وہی اقدام اٹھایا گیا۔ انگریزی میں جس کو ایکسپوز ہونا کہتے ہیں، پی ٹی آئی کے ساتھ وہی ہورہا ہے، جن مسائل کو چٹکی بجاتے ہی حل کرنے کے دعوےکیے گئے وہ مسائل اژدہا بن کر تبدیلی سرکار کے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔ ساحل سے جہان خیر و شر کا نظارہ جتنا آسان لگ رہا تھا، طوفان کے اندر اتر کر اس کی شدت کا سامنا کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا جارہا ہے۔

تبدیلی کی آڑ میں ہمارے آزمودہ کار لیڈرز کس کس طریقے سے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ایک طرح سے اس کا اندازہ خوشحال خان خٹک کی جنم بھومی نوشہرہ میں کیا جا سکتا ہے۔ ایک خٹک وہ تھا جس نے اورنگزیب عالمگیر کی حکومت کا ناک میں دم کر رکھا تھا، جن کے قلم سے ہزاروں کی تعداد میں وہ الفاظ نکلے جو کسی بھی قوم کا سرمایہ افتخار ہوسکتے ہیں اور ایک ہمارے زمانے کے خٹک صاحب جس نے عمران خان کو سیڑھی بنا کر نہایت سرعت کے ساتھ کامیابی کے زینے طےکیے ہیں۔ ہمارے وزیرِ دفاع کبھی نوشہرہ میں ہزار جتن کر کے جوڑ توڑ سے ایک عدد صوبائی اسمبلی کی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوجاتے تھے، تبدیلی کی لہر چلنے کے بعد پختونخوا کے سب سے مضبوط سیاسی فرد بن چکے ہیں۔

دو ہزار آٹھ کے الیکشن کے دوران پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے امیدوار اس بات پر شاکی تھے کہ پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی کے امیدوار اور موجودہ وزیر دفاع میں ڈیل ہوچکی تھی، نتائج آئے تو قومی اسمبلی کی سیٹ پر پیپلز پارٹی جبکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر موجودہ وزیر دفاع کامیاب ہوگئے۔ تبدیلی آئی ہے تو اسی نوشہرہ سے خود وزیر دفاع جبکہ ایک قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشتوں پر اپنے داماد، صاحبزادے اور برادرِ خورد کو منتخب کروایا۔ مخصوص نشستوں پر بھی ماشاءاللہ خاندان کے افراد کی بہار لائے ہوئے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی جو تین نشستیں خاندان کے ہاتھوں سے بچ گئیں ہیں ان پر بھی اپنے وفاداروں کا انتخاب کرا چکے ہیں۔

یہ ہے ہمارے نئے پاکستان کی صورت گری۔ صورتحال کی سنگینی اپنی جگہ پر دل میں اب بھی یہ خواہش موجود ہے کہ اللہ ہماری نئی حکومت کو کامیابی عطا کرے وگرنہ آگے کا منظر نامہ انتہائی بھیانک نظر آتا ہے۔ کل معاشی مسائل کے شکار پی ٹی آئی کے ایک پروانے ٹائپ ورکر کو مایوس پا کر پوچھ لیا کہ خدانخواستہ خان صاحب کی حکومت ناکام ہوئی تو کیا ہوگا؟ بغیر کسی توقف کے بولے کہ اس کے بعد تو ہمارے مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے کہ لوگ اپنے مسائل کے سلسلے میں جس بھی دفتر جائیں، پستول ساتھ لے کر جائیں، جس بندے کے ہاتھ میں اختیار ہو اس کی کنپٹی پر پستول رکھ کر اپنا کام نکلوائے، کام نہ ہو تو ایک گولی ضائع کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہیے۔

اللہ نہ کرے کہ حالات اس نہج پر پہنچ جائیں لیکن اس حکومت کی ناکامی کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہی ناں کہ لوگ ایک مرتبہ پھر پی ایم ایل این یا ہوسکتا ہے پیپلز پارٹی کی طرف دیکھیں گے اس طرح تو تبدیلی طویل رخصت پر چلی جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).