پاک امریکہ تعلقات میں حائل دشواریاں


\"edit\"امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے نیو کلیئر سپلائر گروپ میں بھارتی رکنیت کی حمایت کے اعلان کے بعد پاکستان نے بھی امریکہ سے باقاعدہ درخواست کی ہے کہ رکنیت کے لئے اس کی بھی حمایت کی جائے۔ اس سلسلہ میں واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی نے امریکی سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کو خط لکھا ہے۔ خط میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے پاس جوہری توانائی کے شعبہ کا وسیع تجربہ ہے اور اس کے پاس ٹیکنیکل صلاحیت اور نیو کلیئر سیفٹی کا موثر اور قابل اعتماد نظام موجود ہے۔ اس خط میں پاکستان کی انرجی کی ضرورتوں کے لئے سویلین نیوکلیئر صلاحیت میں اضافہ کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اس دوران اسلام آباد میں این ایس جی کے رکن ملکوں کے سفیروں کو بھی پاکستان کی درخواست کی حمایت کرنے کے لئے بریفنگ دی گئی ہے۔ نیوکلیئر سپلائر گروپ 48 ملکوں پر مشتمل ہے اور یہ ممالک جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے مقصد سے اس شعبہ میں استعمال ہونے والے مواد اور آلات کی تجارت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ تاہم واشنگٹن سے موصول ہونے والے اشاروں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ، پاکستان کی رکنیت کی حمایت کے لئے تیار نہیں ہے لیکن بھارتی درخواست کے لئے بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔

واشنگٹن میں منگل کو صدر باراک اوباما اور وزیراعظم نریندر مودی کی ملاقات سے پہلے بھی یہ بات واضح تھی کہ امریکہ بھارت کی این ایس جی نیو کلیئر سپلائر گروپ میں شمولیت کی حمایت کر رہا ہے۔ اس ملاقات میں صدر اوباما نے بھارتی وزیراعظم سے وعدہ کیا تھا کہ امریکہ اپنی پوری کوشش کرے گا کہ بھارت کو این ایس جی کے رکن کے طور پر قبول کر لیا جائے۔ امریکہ نے اس مقصد کے لئے سفارتی کوششیں تیز کر دی ہیں اور رکن ممالک پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ اگلے ہفتے جنوبی کوریا میں منعقد ہونے والے اجلاس میں بھارت کی درخواست منظور کرلیں۔ لیکن گزشتہ ماہ پاکستان کی طرف سے این ایس جی کی رکنیت کے لئے باقاعدہ درخواست دائر کئے جانے کے بعد جب اخباری نمائندوں نے وزارت خارجہ کے ترجمان سے اس بارے میں سوال کیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ اس گروپ میں فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں۔ اگر سب رکن پاکستان کی رکنیت پر متفق ہو گئے تو وہ رکن بن جائے گا۔ ترجمان نے اس سوال پر حکومت کی پوزیشن واضح کرنے سے گریز کیا تھا۔ اب حکومت پاکستان کی طرف سے براہ راست خط لکھے جانے کے بعد امریکہ کو واضح موقف اختیار کرنا پڑے گا۔ پاکستان کی رکنیت کی حمایت کرنے کی صورت میں امریکہ ، بھارت کو یہ باور نہیں کروا سکے گا کہ وہ اس کے ساتھ خصوصی برتاؤ کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ خطے میں اس کے مفادات کا تحفظ کرے اور اس کی منڈیاں امریکی مصنوعات کیلئے کھول دی جائیں۔ پاکستان کو صاف انکار کرنے کی صورت میں اس خطے کے ایک اہم ملک کے ساتھ طویل المدت رنجش اور بداعتمادی کا رشتہ استوار ہو سکتا ہے۔

امریکہ کو یہ پتہ ہے کہ اس کی حمایت بھارت کو این ایس جی کا رکن بنوانے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اگرچہ متعدد ممالک امریکی اثر و رسوخ کی وجہ سے امریکہ کا تجویز کردہ موقف اختیار کریں گے لیکن چین نے واضح کیا ہے کہ وہ بھارتی رکنیت کی مخالفت کرے گا۔ اس کا کہنا ہے کہ بھارت نیوکلیئر عدم پھیلاؤ NPT کے معاہدے کی توثیق کرنے سے انکار کرتا رہا ہے جبکہ 1972 میں یہ گروپ اسی مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت بھارت کے جوہری دھماکے کے بعد امریکہ نے ہی نیوکلیئر مواد اور آلات بنانے والے تمام ملکوں کو ایک گروپ میں جمع کر کے این ایس جی نیو کلیئر سپلائر گروپ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس گروپ کے رکن جوہری ٹیکنالوجی کی تجارت پر کنٹرول کرتے ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں کہ مزید ملک جوہری ہتھیار نہ حاصل کر سکیں۔ اب وہی امریکہ جنوبی ایشیا میں بھارت کے ساتھ دوستی کے جوش میں اس بنیادی اصول کی خلاف ورزی پر آمادہ ہے۔ چین کے علاوہ آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ اور ترکی جیسے ملکوں نے بھی امریکہ کی جانبدار اور امتیازی پالیسی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ اس گروپ کے ہیڈ کوارٹرز ویانا میں گزشتہ دنوں سفارتی سرگرمیاں تیز ہوئی ہیں کیونکہ امریکہ رکن ممالک کو بھارت کی حمایت پر آمادہ کرنے کے لئے پورا زور لگا رہا ہے۔ البتہ چین نے دوٹوک اور واضح موقف اختیار کیا ہے اور وہ ایسی کوششوں کو ناکام بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔ چین کے ویٹو کی وجہ سے بھارت سیؤل میں ہونے والے اجلاس میں شاید اس گروپ کا رکن نہ بن سکے۔ البتہ اگر رکن ممالک پاکستان کی شمولیت کی درخواست پر بھی اسی معیار اور اصول کے مطابق غور کرنے پر آمادہ ہوئے تو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔

پاکستان کی طرف سے نیوکلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کے لئے درخواست دینے کا مقصد بھی بھارت کے یک طرفہ رسوخ کو کم کرنے کی کوشش ہے۔ یہ درخواست سامنے نہ آنے کی صورت میں امریکہ یہ کہہ کر بھارت کا مقدمہ زیادہ شدت سے لڑ سکتا تھا کہ جب پاکستان رکنیت کے لئے تیار ہو گا تو اس کی درخواست پر غور کر لیا جائے گا۔ تاہم بروقت یہ درخواست دائر کر کے امریکہ کے لئے مشکل سفارتی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر امریکہ یک طرفہ طور سے بھارت کے ساتھ سویلین نیوکلیئر تعاون کا معاہدہ کرتے ہوئے پاکستان کو تنہا نہ کرتا اور اب این ایس جی میں بھارت کی شمولیت کے لئے باقاعدہ مہم جوئی کا آغاز نہ کرتا تو پاکستان بھی اس گروپ کی طرف رجوع نہ کرتا۔ بھارت کی رکنیت کے لئے امریکی کوششوں کے بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ اگر بھارت اس گروپ کا رکن بن گیا تو وہ پاکستان کو کبھی بھی اندر داخل ہونے نہیں دے گا۔ قواعد کے مطابق گروپ کے سب ارکان کو نئے رکن کی شمولیت کے سوال پر ویٹو کا حق حاصل ہے۔ بھارت ، پاکستان کے ساتھ ضد اور دشمنی کے رشتہ کی وجہ سے ہمیشہ پاکستان کی درخواست کو مسترد کرنے کے لئے ووٹ دے گا۔ البتہ اب بھارت اور امریکہ اس سوال پر مشکل صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ 21 مئی کو نوشکی ڈرون حملے اور 24 مئی کو پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فروخت کا معاہدہ منسوخ ہونے کے بعد اب این ایس جی میں بھارتی رکنیت کے لئے کوششوں کے نتیجے میں اسلام آباد اور واشنگٹن میں دوریاں بڑھنے لگی ہیں۔ نوشکی حملہ کا جواز دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ذکر کر کے تلاش کیا جاتا ہے۔ صدر اوباما نے واضح کیا تھا کہ ملا اختر منصور افغانستان میں امریکی مفادات کے خلاف سرگرمیوں میں مصروف تھا۔ اسی طرح ایف 16 کی فروخت کے معاملہ میں سینیٹ کے انکار کو عذر بنا کر پاکستان کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ پاکستان نے امریکہ پر غیر ضروری اعتماد کرتے ہوئے یہ امید قائم کر لی تھی کہ سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے انکار کے باوجود اوباما انتظامیہ یہ طیارے پاکستان کو فراہم کرنے کے لئے کوئی راستہ ضرور تلاش کر لے گی۔ اسی لئے اسلام آباد میں 24 مئی تک خریداری معاہدے پر دستخط کرنے کے حوالے سے کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دی۔ بالآخر یہ تاریخ گزر گئی اور امریکی وزارت خارجہ نے واضح کر دیا کہ یہ معاہدہ تو اب ختم ہو چکا ہے۔ اس طرح پاکستان اپنے فضائی دفاع اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اہم ہتھیار سے محروم ہو گیا۔ تاہم نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھارت کی شمولیت کے لئے امریکہ جو کوششیں کر رہا ہے ، ان کا یک طرفہ طور سے بھارت کو نوازنے اور خوش کرنے کی کوششوں کے علاوہ کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ امریکہ کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ بھارت کو اس گروپ میں شامل کروا کے وہ جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بھارت اس گروپ کے ممبر کے طور پر چھٹی ایٹمی قوت کے طور پر تسلیم کر لیا جائے گا۔ وہ واحد ملک ہو گا جو نیوکلیئر عدم پھیلاؤ کے معاہدے NPT پر دستخط کئے بغیر یہ رکنیت حاصل کر سکے گا۔ اس حیثیت میں وہ اپنی سویلین نیوکلیئر سہولتوں سے جوہری مواد کسی بھی وقت جنگی مقاصد کیلئے استعمال کر سکے گا۔ اس صورت میں پاکستان بھی ایٹمی دوڑ میں بھارت کا مقابلہ کرنے کی کوششیں جاری رکھے گا۔ اس طرح این ایس جی جس بنیادی مقصد کیلئے قائم ہوا تھا، اس میں ناکام ہونے سے اس گروپ اور معاہدے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہے گی۔

اس معاملہ میں امریکی حکومت کا پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک اسلام آباد میں خاص طور سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے آج ایک پریس کانفرنس میں امریکہ کی بھارت نوازی پر پاکستان کی تشویش واضح کی اور کہا کہ امریکہ کو جب پاکستان کی ضرورت نہیں رہتی تو وہ اسے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے امریکہ کو بھارت کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعاون پر اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے۔ پاکستان کو خاص طور سے امریکہ اور بھارت کے درمیان فوجی تعاون کے معاہدے پر پریشانی لاحق ہے۔ نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن کے دوران اس معاہدہ کے مسودہ کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ اس معاہدہ کے مطابق دونوں ملک ایک دوسرے کی عسکری سہولتوں کو استعمال کر سکیں گے۔ بھارت اور وزیراعظم نریندر مودی کی حکمت عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ دوستی اور تعاون کی پینگیں بڑھاتے ہوئے، یہ کوشش بھی کر رہے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان میں دوریاں پیدا ہو جائیں۔ امریکہ چین کے مقابلے میں بھارت کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے بھی پاکستان کے ساتھ پوری طرح سرد مہری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا۔ اس طرح خطرناک علاقائی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔

بھارتی وزیراعظم کے دورہ واشنگٹن سے اسلام آباد میں جو تشویش محسوس کی جا رہی ہے، اسے دور کرنے کیلئے دو اعلیٰ امریکی عہدیدار مذاکرات کے لئے پاکستان آ رہے ہیں۔ تاہم دونوں ملک اسی صورت میں کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں، اگر وہ ایک دوسرے کی مجبوریوں اور ضرورتوں کو یکساں طور سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ نہ پاکستان یہ توقع کر سکتا ہے کہ امریکہ بھارت کے ساتھ تعلقات استوار نہ کرے اور نہ امریکہ کو یہ اصرار کرنا چاہئے کہ پاکستان، افغانستان میں اپنے مفادات کو نظر انداز کر کے امریکی ایجنڈا کی تکمیل میں کسی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرے گا۔ دونوں ملکوں کو باہمی تعلقات میں توازن تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے الزام تراشی اور امتیازی سلوک کی پالیسیاں ترک کرنا ضروری ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments