سعودی صحافی کا قتل: بنیادی اقدار پر مغرب کے ایمان کا امتحان


امریکہ خود کو مہذب دنیا کا لیڈر کہتا ہے اور اس کے رہنما یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ امریکہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور اعلیٰ اقدار کے فروغ کے لئے کام کرتا ہے۔ اگرچہ دنیا بھر کے مختلف خطوں میں امریکہ کی کارورائیاں امریکی لیڈروں کے دعوؤں سے متصادم ہوتی ہیں لیکن میڈیا کی طاقت کے زور پر ہمیشہ یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ بعض معاملات میں طاقت کا استعمال دراصل انسانی جانوں کے تحفظ اور زیادہ بڑی تباہی کی روک تھام کے لئے ضروری ہوتا ہے۔

شام میں گزشتہ سات برس سے جاری خانہ جنگی اور صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے کی جانے والی ساری کوششوں کے درپردہ یہی دلیل سامنے لائی جاتی ہے کہ امریکہ دراصل شام کے باشندوں کو ایک سفاک حکمران کے پنجے سے نجات دلانا چاہتا ہے۔ افغانستان اور عراق پر حملوں کے لئے بھی یہی جواز پیش کیا جاتا رہا ہے۔ امریکہ کوستمبر 2011 میں نیویارک کے ٹوین ٹاورز پر حملوں میں تین ہزار افراد کی ہلاکت کا اس قدر صدمہ رہا ہے کہ اس کا جواب دینے کے لئے اس نے افغانستان ، عراق اور شام میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت کو درست اور جائز قرار دینے پر اصرار کیا ہے۔ دہشت گرد عناصر کی ہٹ دھرمی اور شدت پسندی کو اس المیہ کا سبب قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ تاہم دو ہفتے پہلے استنبول کے سعودی قونصل خانہ میں 59 سالہ سعودی صحافی جمال خشوگی کی ہلاکت نے امریکہ سمیت مغرب کے تمام ملکوں کی اصول پرستی اور انسان دوستی کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔

جمال خشوگی ممتاز سعودی صحافی تھے۔ وہ اہم اخباروں اور نشریاتی اداروں کی سربراہی بھی کرچکے ہیں اور شاہی خاندان کے مشیر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں ۔ تاہم گزشتہ برس کے دوران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پالیسیوں سے اختلاف کی بنا پر انہوں نے امریکہ میں رہائش اختیار کرلی تھی اور امریکہ کے ممتاز اخبار واشنگٹن پوسٹ کے لئے کالم لکھنے لگے۔ ہر ماہ پہلے صفحے پر شائع ہونے والے اس کالم میں جمال خشوگی سعودی ولی عہد پر براہ راست تنقید کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف انٹرویوز میں بھی انہوں نے مادر وطن میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں ہوشربا انکشافات کئے تھے۔ سعودی حکام کسی بھی طرح انہیں اپنے وطن واپس لانا چاہتے تھے لیکن جمال خشوگی اعلیٰ عہدہ یا کسی ترغیب کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں ہوئے ۔ انہیں اندیشہ تھا کہ سعودی عرب واپسی کی صورت میں جیل یا موت ہی ان کا مقدر ہو گی۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ سعودی ولی عہد پر نکتہ چینی اس قدر مہنگی ثابت ہو سکتی ہے کہ بیرون ملک بھی ان کی زندگی محفوظ نہیں ہے۔

جمال خشوگی گزشتہ ماہ کے آخر میں استنبول پہنچے جہاں وہ ایک ترک خاتون سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ اس شادی کے لئے ضروری کاغذات کے حصول کے لئے انہوں نے سعودی قونصل خانہ سے وقت لیا اور 2 اکتوبر کو وہ قونصل خانہ گئے۔ لیکن وہ قونصل خانہ سے باہر نہیں نکل پائے۔ اب ترک حکام اس بات کی تصدیق کررہے ہیں کہ جمال خشوگی کو اسی روز سعودی عرب سے استنبول پہنچنے والے پندرہ افراد نے قونصل خانہ کی عمارت میں تشدد کے بعد قتل کیا اور ان کی لاشش کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا گیا۔ ترک حکام کے مطابق یہ پراسرار پندرہ سعودی شہری ایک خصوصی طیارے میں استنبول آئے تھے اور اسی روز ترکی سے واپس روانہ ہوگئے تھے۔ ترک حکام نے ابتدائی معلومات کے بعد تقریباً دس روز قبل ہی جمال خشوگی کے قتل کی اطلاع دی تھی۔ لیکن سعودی حکام نے اس قسم کی اطلاعات کو سختی سے مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ ان کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

شروع میں سعودی حکام نے یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی کہ جمال خشوگی قونصل خانہ سے چلے گئے تھے اور بعد میں انہیں کسی نے غائب کیا ہو گا۔ ان ابتدائی خبروں کے بعد ایک طرف واشنگٹن پوسٹ سمیت متعدد امریکی اخباروں نے اس پراسرار گمشدگی پر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا اور دوسری طرف ترک حکام کی طرف سے اس قتل کی مزید تفصیلات بھی سامنے آنے لگیں ۔ ان میں پندرہ منٹ کی ایک آڈیو گفتگو بھی شامل ہے جو مبینہ طور پر قونصل خانہ کے اندر جمال خشوگی اور ان سے پوچھ گچھ کرنے والے سعودی افسروں کے درمیان ہوئی تھی۔ اس گفتگو میں سنا جاسکتا ہے کہ تفتیش کرنے والے لوگوں نے جمال خشوگی کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ ترکی نے یہ گفتگو سعودی عرب کے علاوہ امریکہ کو بھی فراہم کردی ہے لیکن ابھی تک یہ آڈیو ریکارڈنگ عام نہیں کی گئی۔

ترکی سے موصول ہونے خبروں میں جمال خشوگی کے قتل کی بار بار تصدیق کے بعد بالآخر سعودی عرب کو اس معاملہ کی تحقیقات کے لئے خصوصی ٹیم استنبول روانہ کرنا پڑی اور اعلان کیا گیا کہ ترک حکام سعودی قونصل خانہ کی تلاشی لے سکتے ہیں۔ لیکن ترکی نے تلاشی کے لئے عائد شرائط کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ تاہم گزشتہ دو روز کے اندر اس معاملہ میں مزید معلومات سامنے آنے کے بعد ترک حکام کو سعودی قونصل خانہ کی تلاشی لینے کی اجازت دی گئی۔ ترک حکام نے میڈیا کے مختلف نمائیندوں کو بتایا ہے کہ آج قونصل خانہ اور اس کے بعد سعودی قونصل جنرل محمد عتیبی کے گھر کی تلاشی لی گئی ہے اور جمال خشوگی کو قتل کرنے کے ثبوت حاصل کئے گئے ہیں۔

باقی اداریہ پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali