قصہ لندن جانے اور فیض میلے میں ہنگامے کا


اس کا تذکرہ پہلے کر چکا تھا کہ اس بار لندن جانے کا شوق فزوں تر نہیں تھا بلکہ بہت حد تک بے دلی تھی۔ ہوا یوں تھا کہ ایک مہربان نے ماسکو میں ”پاکستانی ثقافتی مرکز“ کی طرح ڈالی ہے۔ اگرچہ 14 اگست کی اس مرکز کے توسط سے جو پہلی تقریب منعقد کی اس میں ناچیز نے ایک چھوٹا سا ڈرامہ سٹیج کیا تھا جو عام لوگوں کو تو بہت اچھا لگا تھا مگر خاص لوگوں یعنی سرکار پاک کو غالباً نہیں بھایا کیونکہ اس کے بعد جو دو سرکاری تقریبات ہوئیں ان میں سفارت خانہ پاکستان کے ” افسروں“ نے مجھے مدعو کرنے سے گریز کیا۔ وہ یقیناً یہ نہیں جانتے کہ مجھے افسروں سے زیادہ اپنوں کی اپنائیت کی چاہ ہوتی ہے۔

پھر فیس بک پر لندن فیض میلہ کا اشتہار دیکھا تو اپنوں سے پوچھا کہ ثقافتی مرکز شروع کرنے سے پہلے یہ سفارتی تقریب دیکھنے کون کون میرے ساتھ جائے گا۔ نور حبیب شاہ اور ثقافتی مرکز شروع کرنے والے خلیل الرحمان تیار ہو گئے۔ پھر نور حبیب شاہ کسی غرض سے پاکستان چلا گیا اگرچہ اس کے نام کا دعوت نامہ میں منگوا چکا تھا۔ خلیل کا دعوت نامہ ملا تو وہ اتفاق سے اپنے کنبے کے ساتھ دبئی میں تھے۔ انہوں نے جلد آنے کی حامی بھری۔ نور حبیب مفرور رہے۔ خلیل کے انے پر ہم دونوں نے درخواستیں بھریں اور خلیل نے اپنے کارڈ سے ہم دونوں کی فیس 248 ڈالر بھری۔ غلطی سے وقت پرائم ٹائم کلک ہو گیا۔ تیسرے روز جب درخواست جمع کرانے گئے تو کہنے لگتی آدمی 7200 روبل تقریباً سوا سو ڈالر اور دیں کیونکہ دفتر کے بعد کا وقت یعنی پرائم ٹائم مانگا ہے، آپ لوگوں نے۔ میں نے انکار کر دیا۔ ان پیسوں کے ریفنڈ کی درخواست بھجوائی جس کے جواب میں لکھا گیاً اگر 28 روز میں آپ کا جواز مناسب لگا تو پیسے لوٹا دیے جائیں گے“ 31 روز گزرنے کے بعد تک نہیں آئے تھے۔

ویزا کی دوسری درخواستیں بھریں۔ وقت ایک ہفتے بعد کا ملا یعنی 19 ستمبر کا۔ اس کے لیے پھر خلیل نے ایک بار اور ہم دونوں کے 252 ڈالر اپنے کارڈ سے ادا کیے۔ جمع کرانے کا ہم دونوں کے وقت میں آدھ گھنٹے کا فرق تھا۔ پہلے میں پہنچا تو ایک بار پھر یہ کہ اس بار آپ نے پرائم ہال لیا ہے 4800 روبل مزید دیں۔ میں اٹک گیا کہ میرا تو ہال معمول کا ہے۔ میں نے خلیل کو فون کیا جو جلد آ گئے۔ ان سے درخواست کا اپنا دوسرا پرنٹ دے کر چیک کروایا تو مجھے معمول کے ہال میں جانے دیا گیا مگر خلیل سے مطلوبہ رقم لے کے انہیں پرائم ہال بھیجا گیا جہاں سے وہ پانچ منٹ میں فارغ ہو گئے مگر مجھے فراغت ڈیڑھ گھنٹے بعد مل سکی تھی۔

مجھے ایک ہفتے بعد ہی ویزا دے دیا گیا کیونکہ میرا یہ تیسرا ویزا تھا۔ اب ٹکٹ لینے، ہوٹل بک کروانے کے لیے ظاہر ہے اس کے ویزے کا انتظار تھا۔ دس تاریخ تک ان کے ویزے بارے کوئی اطلاع نہ آئی تو میں بھی جانے سے بد دل ہو گیا۔ خلیل نے مشورہ دیا کہ آپ تو جائیں۔ میرے پاس ینک کا پینشن کارڈ ہے۔ اس سے پیمنٹ پاس ہی نہ ہو۔ پھر اگلے روز نور حبیب نے براہ راست بک کروائی جو صبح صبح تھی مگر میں سست ہوں چنانچہ بالواسطہ پرواز بک کروائی گئی۔ جانے کا وقت مناسب یعنی 3 بجے مگر واپسی کا وہی غیر مناسب یعنی صبح پونے سات۔ مگر فوری طور پر ایسی ہی پروازیں مل سکیں۔ بیگیج کا تو مجھے معلوم تھا کہ ہینڈ بیگیج لے جایا جا سکتا۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ گیارہ بجے گھر سے نکلے ہوئے کو شام تک کھانا نہیں ملے گا۔

ماسکو سے برسلز تک جو نوجوان اپنے بھائی یا چھوٹے بھائی لڑکے کے ساتھ میرا ہمسفر تھا وہ پونے چار گھنٹے آنکھیں موندے رہا۔ سفر بہت بور گزرا۔ ایر ہوسٹسیں باقاعدہ بوڑھی تھیں یعنی جھریوں بھرے چہروں والیاں۔ یورپ کے ایر پورٹ بہت لمبے لمبے ہیں۔ پہلے تو برسلز ایرپورٹ کے ڈیوٹی فری لاونج سے گزر کے فوڈ کورٹ میں ابلے چاول اور سبزی کا ظہرانہ تناول کیا، سافٹ ڈرنک سمیت یورو میں ادائیگی کی۔ ایرپورٹ پر ہر چیز تگنی مہنگی ہوتی ہے۔ چار گھنٹے وقت کاٹنا دشوار ہو گیا۔ کوئی گھنٹہ پہلے اندر ہی اندر کوئی ڈیڑھ کلو میٹر کے فاصلے پر گیٹ بی بتیس پر جا بیٹھا۔ اعلان مانچیسٹر کا تھا۔ سارا ہال خالی ہو گیا بس میں بیٹھا رہا۔ سوچا پوچھ ہی لوں۔ مامور مہ لقا نے بتایا کہ تبدیل ہو گیا آپ گیٹ بی اٹھائیس پر پہنچیں۔ کہا کہ اعلان تو ہوا نہیں۔ بولی کمپیوٹر پر ہے۔ خیر سب کو جا لیا۔

اس پرواز میں میرے دونوں اطراف میں لمبے جوڑے جوان مرد تھے۔ ایک جانب انگریز اور دوسری جانب، بعد میں معلوم ہوا جرمن تھا جو اپنے آئی پیڈ پر وڈیو دیکھ دیکھ کے مسکرا رہا تھا۔ اس کی مسکراہٹ پر بات کرکے گپ شروع ہو گئی۔ محبت کے موضوع سے جنگ عظیم دوم اور فسطائیت تک پر۔ 45 منٹ گزر گئے۔ بچہ پر مصر تھا۔ اگرچہ معیشت میں بیچلر کرکے بطور کنسلٹنٹ کام کرتا ہے اور یورپ بھر میں آتا جاتا رہتا ہے۔ گپ لگا کے بہت خوش ہوا۔ دوسری جانب والا بھی خلیق تھا جس نے بیگیج بن سے مجھے میری جیکٹ نکال کر دی اور جب تک میں نے لینڈنگ کارڈ بھرنے کو بال پوائنٹ اور پاسپورٹ نکال نہیں لیے وہ جیکٹ پھر سے اوپر رکھنے کو کھڑا رہا۔ ہم یورپ والوں کے اخلاق سے بہت ناآشنا لوگ ہیں۔

جہاز زمین تک پہنچتے ہوئے ادھر ادھر بری طرح ڈول رہا تھا۔ میں نے جولیان نام کے جرمن سے کہا کہ کہیں پائلٹ مخمور تو نہیں۔ بولا نہیں، ہوا کا طوفان ہے۔ لینڈنگ بہت ہی بری تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ میرا فشار خون بلند ہو گیا تھا ڈر کے مارے۔ پھر راہداریوں کا ایک طویل سلسلہ چل کر امیگریشن پہنچے۔ جس انسپکٹر نے مجھے آنے کا اشارہ کیا وہ دیسی تھا۔ کہنے لگا، میزبان کا دعوت نامہ ہے۔ بھائی ایمبیسی میں دیا تبھی ویزا ملا ہے۔ اس وقت تو نہیں میرے پاس۔ بہت اخلاق سے بولا، کوئی بات نہیں مگر پلے باندھ لیجیے کہ ہر دستاویز کی تصویر موبائل میں محفوظ کر لیا کریں۔ کوئی بھی کچھ بھی مانگ سکتا ہے۔ اس شریف آدمی کا نام آصف تھا جو ہندوستانیوں کی اولاد تھا۔

جہاز گھنٹہ لیٹ ہو گیا تھا۔ مہربان دوست ندیم سعید باہر منتظر تھا۔ پہلے ٹرین پھر اوبر ٹیکسی میں سوار ہو کر ساڑھے بارہ بجے رات گھر پہنچے تو ان کی اہلیہ ارتقا نے مرغی کی بریانی، شامی کباب اور گجریلے سے میری تواضع کی۔ کوئی تین بجے صبح سو کر پونے نو کے قریب اٹھا۔

فیض امن میلہ ساڑھے تین بجے تھا۔ ندیم سعید مجھے وہاں پہنچنے کی ہدایات دینے اور نزدیکی سٹیشن تک پہنچانے سے پہلے علاقہ دیکھنے لے گیا۔ پوچھا چائے خانے میں بیٹھیں گے یا پب میں۔ اگرچہ میں مے نوش نہیں مگر مجھے برطانیہ کے پب اچھے لگتے ہیں۔ ان میں کلاسیکی پن ہوتا ہے۔

ندیم سیانا تو ہے ہی لیکن سب کا خیال بھی خوب رکھتا ہے۔ نکلنے سے پہلے موسم کی پیشگوئی کے مطابق جرسی یا جیکٹ لے جانے کا پوچھا تو ارتقا نے کمرے سے ہی مشورہ دیا کہ سب کچھ ساتھ لے جائیں۔ موسم بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ندیم نے ایک چھوٹے رک سیک میں میری جرسی رکھ دی۔ گم نہ کرنے کی ہدایت کے ساتھ ایک طاقتور پاور بینک ڈال دیا۔ راستے سے مقامی سم خرید دی۔ ڈرائی فروٹس اور پانی کی دو چھوٹی بوتلیں خرید دیں۔

پب میں جا کے اس نے میرے لیے کافی اور اپنے لیے کچھ اور کا آرڈر دیا۔ ایک انگریز لڑکا خالی مگ لا کے بہت کچھ بولنے کے بعد مگ رکھ چلتا بنا۔ میں فیس بک پر مصروف تھا۔ ندیم اسے سنتا رہا تھا۔ بعد میں کہا کہ یہ مگ لے کر کافی مشین کے پاس جائیں۔ وہ آپ کو کافی کی اقسام بتائے گی۔ اپنی پسند کی بھر لائیے۔ جب تک بیٹھے ہیں۔ جتنی بار چاہیں جا کے مگ بھر لیجیے۔ میں کافی کم پیتا ہوں۔ فشار خون بلند کرتی ہے۔ کافی پینے کے بعد مجھے ہلکا سا پسینہ آیا۔ مجھے پسینہ کم ہی آتا ہے۔ جیکٹ بھی اتاری ہوئی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4