کپتان کو چودھریوں کی سیاست کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا


ضمنی الیکشن میں دل چسپ نتیجہ یوں دیکھنے کو ملاہے کہ چودھری برادران نے خاموشی کیساتھ دو سیٹوں پر میدان مار لیا ہے۔ مطلب چودھری پرویز الہی کے فرزند مونس الہی اور چودھری شجاعت حسین کے صاحب زادے چودھری سالک حسین نے جیت اپنے نام کر لی ہے۔ ادھر مسلم لیگ نواز قومی اسمبلی کی 4 نشتوں پر جیت کیساتھ حکمران جماعت تحریک انصاف کے برابر آکھڑی ہوئی ہے۔ ضمنی الیکشن حکمران جماعت کیلئے کوئی بڑی خوشی لیکر یوں نہیں آیا کہ تحریک انصاف کے امیدوار وزیر اعظم عمران خان کی دو نشتوں سمیت تین سیٹوں پر امیدوار ہار گئے ہیں۔ ادھر متحدہ مجلس عمل کو ایک سیٹ ملی ہے جو کہ اکرم خان درانی کے فرزند زاہد اکرام درانی نے اپنے نام کی ہے۔

ضمنی الیکشن کے نتیجہ کے بعد قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن یوں بدل کر رہ گئی ہے۔ اب متحدہ مجلس عمل کی قومی اسمبلی میں نشتوں کی تعداد 15 سے 16 ہو گئی ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کی نشتوں کی تعداد  151 سے 155 ہو گئی ہے؛ جب کہ مسلم لیگ نواز کی نشتوں کی تعداد 81 سے 85 ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ (ق) آسانی کیساتھ 3 سے 5 پر چلی گئی ہے۔ ضمنی الیکشن کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کا ذکر نہ کیا، تو زیادتی ہو گی۔ ہمارے سینئر صحافی شاہد بٹ نے دار لحکومت اسلام آباد کی سیٹ کا نتیجہ وٹس ایپ کیا ہے۔ اس سیٹ پر تحریک انصاف کے امیدوار علی نواز جیتے ہیں، اور پیپلز پارٹی کے امیدوار خان افتخار شہزادہ کو صرف 485 ووٹ ملے ہیں۔ مطلب اب پیپلزپارٹی کا منشور عوام میں اتنا مقبول ہے کہ ضمنی الیکشن میں پورے پانچ سو ووٹ بھی نہیں ملے ہیں۔ امید ہے بلاول بھٹو زرداری اس بارے میں تحقیقات کرائیں گے کہ آخر اس حدتک پارٹی کیوں جا پہنچی ہے۔

ادھر تحریک انصاف کے مخالفین کا دعوی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان عوام میں پچاس دنوں ہی میں مقبولیت کھو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے ضمنی الیکشن میں ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ دوسری طرف نواز شریف نے بھی ضمنی الیکشن میں لیگی امیدواروں کی کام یابی کو مستقبل قریب میں تبدیلی سے تعبیر کیا ہے۔ نواز شریف کی طنزیہ گفتگو یوں بھی سمجھ میں آتی ہے کہ موصوف ابھی حال ہی میں اڈیالہ جیل سے اپنی صاحب زادی مریم نواز اور داماد کپیٹن (ر) صفدر کیساتھ ضمانت پر رہا ہوئے ہیں لیکن ابھی ان کی رہائی کا جشن ہی مکمل نہیں ہوا تھا کہ ان کے بھائی و سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کو قومی احتساب بیورو نے لاہور میں گرفتار کر لیا۔

اسی طرح نواز شریف کے فرزند حسن اور حسین کے علاوہ سمدھی اسحاق ڈار لندن مفرور ہیں، لیکن اس کے باوجود ضمنی الیکشن میں ان کی پارٹی تحریک انصاف کے برابر نشتیں جیت گئی ہے۔ اس صورت احوال میں یہ سوال اہم ہے کہ کیاواقعی لیگی لیڈر شپ عوام میں مقبول ہے؟ یا پھر تحریک انصاف مکمل تیاری کیساتھ ضمنی الیکشن میں نہیں گئی تھی۔

مثال کے طورپر جب تحریک انصاف کی قیادت نے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے بھتیجے راشدہ شفیق، وفاقی وزیر پٹرولیم غلام سرور خان کے صاحب زادے منصور حیات خان، وزیر دفاع پرویز خٹک کے صاحب زادہ ابراہیم خٹک، اسی طرح پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک و دیگر امیدواروں کو نانی ویہڑا کے اصول کے تحت پارٹی ٹکٹ جاری کیے تھے، تو اٹک میں طاہر صادق کی جیتی ہوئی نشت پر ان کے فرزند کو ٹکٹ جاری کرنے کی بجائے خرم علی خان کو تحریک انصاف کا امیدوار بنا کر لیگی امیدوار کیلئے راہ ہم وار کرنے کے پیچھے کون سی گیڈر سنگھی تھی۔

ہمارے خیال میں طاہر صادق کے فرزند کو بھی اسی فارمولے کے تحت پارٹی ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا، جس اصول کے تحت شیخ رشید سے لیکر پرویز خٹک اور غلام سرور خان کے فرزند اور دیگر کے بھائی اور بھتیجے کو ٹکٹ دیے گئے تھے۔ اس طرز سیاست کے بعد تو کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف نے اٹک کی نشت پر طاہر صادق کے صاحب زادے کو ٹکٹ نہ دے کر سیٹ ہارنے کا پنگا ازخود لیا تھا۔ اس میں کسی تیسرے بندے کا ہاتھ نہیں ہے۔ یہ اپنوں کی کارروائی ہے۔

ہمارے خیال میں تحریک انصاف کی لیڈرشپ جانتی ہے، بالخصوص وزیر اعظم عمران خان تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا کونسا ہمدرد جو کہ ان کو طاہر صادق کے فرزند کو پارٹی ٹکٹ نہ دینے پر قائل کرتا رہا تھا۔ طاہر صادق پنجاب کی سیاست میں بڑا نام ہے۔ انہوں نے اسوقت بھی اپنے سیاسی مخالفین کو مشکل میں رکھا، جب تحریک انصاف جو اب حکومت میں ہے، مشکل میں تھی۔ مطلب بلدیاتی الیکشن کے دوران لیگی حکومت شہباز شریف کی وزیر اعلی کے دوران بلدیاتی الیکشن میں ضلعی حکومتیں دھڑا دھڑا اپنے نام کر رہی تھیں۔

درست ہے لیگی امیدواروں کی اس تابڑ توڑ کام یابی کے پیچھے لیگی قیادت کی مقبولیت کا اتنا عمل دخل نہیں تھا، جتنا کہ صوبائی حکومت کی طاقت کا کرشمہ تھا، لیکن جو بھی تھا، انہوں نے تحریک انصاف کے امیدواروں کو جیت کے قریب تک نہیں جانے دیا۔ حد تو یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ میانوالی جو کہ وزیر اعظم عمران خان کا آبائی ضلع تھا، وہاں بلدیاتی الیکشن میں اکثریت تحریک انصاف کے امیدواروں کو ملی تھی، لیکن ضلع کونسل میانوالی کا چیرمین تخت لاہور نے اپنا مسلم لیگی بنوایا تھا۔ انصافی بھائی منہ دیکھتے رہ گئے ہیں۔ اس صورت احوال میں طاہر صادق نے تخت لاہور کے مسلم لیگی حکمران شہباز شریف کو اپنے ضلع اٹک کی پگ پر حملہ آور نہیں ہونے دیا تھا بلکہ اپنی بیٹی ایمان طاہر کو ضلع کونسل کا چیرمین بنوایا تھا۔

یہاں ضمنی الیکشن کے نتیجے کو جب سب ڈسکس کر رہے ہیں تو یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب چودھری برادران تحریک انصاف کے اتحادی ہیں اور اپنے بچوں کیلئے ضمنی الیکشن میں اسپورٹ بھی لی ہے تو وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ان اہم اتحادیوں کے طویل سیاسی تجربے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟ یا پھر ایسا تھا کہ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہی تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیر اعظم عمران خان کو ضمنی الیکشن میں یہ نتیجہ دکھانے میں دل چسپی رکھتے تھے؛ تا کہ ان کو ان کی یاد آتی رہے اور اس بات کا احسا س بڑھے کہ وزرات اعلی پنجاب کیلئے بہترین چوائس چودھری تھے یا پھر یہاں ایسا ہوا ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے امیر ترین دوستوں پر اعتماد کر کے چودھری برادران کو ضمنی الیکشن کے دنگل میں موقع ہی نہیں دیا، کہ وہ اپنے تجربے کے بل بوتے پر مسلم لیگی امیدواروں کو ضمنی الیکشن کے سیاسی میدان میں اسی طرح چاروں شانے چت کرتے، جس طرح انہوں نے مونس الہی اور چودھری سالک حسین کی جیت کیلئے ڈھیر کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).