بازار حسن، چکلے اور بھنگ کی دکانیں کھولنے کا مطالبہ سندھ سے ہی کیوں آتا ہے؟


اس خطے میں سندھ کا ایک اپنا ہی مزاج ہے۔ ایک منفرد اور جدا مزاج۔ اب سندھ کے شہر میرپورخاص سے ایک مطالبہ سامنے آیا ہے کہ سندھ میں بازارحسن اور چکلے کھولنے کی اجازت دی جائے۔ مطالبہ ایک چھوٹی سی تنظیم، تنظیم الفقرا میرپورخاص نے کیا ہے تنظیم اس کے حق میں مظاہرے کرنے کے علاوہ فیس بک پر مہم بھی چلا رہی ہے۔ تنظیم کے نام سے تو لگ رہا ہے کہ یہ کوئی فقیروں کا گروپ ہے، مگر در حقیقت اس تنظیم کے روح رواں ایک کافی پڑھے لکھے شخص اور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل مسٹر امان اللہ سومرو ہیں۔

امان اللہ سومرو ایڈوکیٹ کا اس مطالبے کے حق میں کہنا ہے کہ، اگر آپ بچوں پر جنسی تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں، اگر آپ گلی گلی، محلہ، محلہ کھلے جسم فروشی کے اڈوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو ہر شہر میں بازار حسن کھولنے کی اجازت دی جائے جس طرح ماضی میں ہوتا تھا۔ جس کی ضرورت ہوگی وہ اپنی ضرورت اس مخصوص جگہ جا کر پوری کر آئے گا اور جو یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے فحاشی میں اضافہ ہوگا وہ خود سے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ اس وقت ہر شہر میں کاروبار جسم فروشی جاری ہے۔

شورش کاشمیری نے اس موضوع پر شہرہ آفاق کتاب ”اس بازار میں “ 1950 میں لکھی تھی، وہ کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں، عورت طوائف کیوں بنی؟ اس نے اپنا گوشت کیوں بیچا؟ اپنے بستر کو شارع عام بنایا تو کیوں؟ کیا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ وہ زانیہ ہے لہذا اس کی سزا سنگساری ہے؟ محض نفرت تو کوئی علاج نہیں، یہ سوگ اس وقت تک نہیں ٹل سکتا جب تک آپ اس کی تشخیص نہ کر لیں۔ آپ چوری چھپے جسم تو خرید لیتے ہیں مگر کبھی کھلم کھلا اس سے یہ بھی پوچھا ہے کہ تم یہ تاج محل کیوں بیچتی ہو؟

شورش کاشمیری کی اس کتاب کا مکمل حاصل یہ ہے کہ، ان کو روٹی دو یا ان کو چکلے کھولنے، جسم فروشی کرنے کی اجازت دو۔ شورش صاحب کو یہ کتاب لکھنے میں چار برس لگے، تقریبا چھہ سو لڑکیوں پر انہوں نے ریسرچ کی اور انٹرویوز لئے ۔ جسم بیچنے کے اسباب کا نتیجہ یہ آیا۔ جسم بیچنے والی 600 لڑکیوں میں سے 80 نے اس کام کو کرنے کی وجہ ” انتہائی افلاس کو قرار دیا۔ 28 لڑکیوں نے بتایا کی ان کو خاوند اس کام کی ترغیب دیتے ہیں۔ 32 نے خواہشات نفسانی کی شدت۔ 45 نے صحبت بد کا اثر۔ 52 نے والدین کی ترغیب۔ 48 نے عاشقوں کی بے وفائی۔ 22 نے سیاسی اغوا۔ 19 نے والدین سے ناراضی۔ 13 نے سرپرستوں سے الجھاؤ۔ 8 نے گھریلوں جھگڑے۔ 13 نے شوہروں کی بے وفائی۔ 9 لڑکیوں نے ادبی معاشقے۔ 9 نے ہی تن آسانی۔ 28 نے مخلوط تعلیم۔ 11 نے ملازمت۔ 112 لڑکیوں نے اپنا جسم بیچنے کی وجہ خاندانی پیشہ بتائی۔ جبکہ 17 لڑکیوں کا کہنا تھا کہ وہ شوقیہ ایسا کرتی ہیں۔ 19 نے بتایا کہ وہ اتفاقیہ اس دھندے میں آگئی ہیں۔ 1 لڑکی کا کہنا تھا کہ وہ جوش انتقام میں یہ کام کر رہی ہے اور 34 لڑکیوں نے کچھ دیگر اسباب بتائے۔

میرے خیال میں آج بھی شورش کاشمیری کی یہ ریسرچ کافی کام کی ہے اگر اس پر مزید کوئی کام کرنا چاہے۔

ہم مرض کا علاج نہیں کرتے، بس فتویٰ جاری کر دیتے ہیں، بازار حسن بند ہونے سے ان میں ہونے والا کام بند نہیں ہوا، بلکہ ایک جگہ ہونے والا کام جگہ جگہ پھیل گیا ہے اس لئے ایڈوکیٹ امان اللہ سومرو کی تنظیم الفقرا کے اس مطالبے میں مجھے کافی وزن محسوس ہو رہا ہے کہ بازار حسن کھولنے کی اجازت دی جائے۔

اس سے قبل تنظیم الفقرا وزیر اعظم عمران خان سے سندھ بھر میں بھنگ کی دکانیں کھولنے کا مطالبہ بھی کر چکی ہے۔ اس سلسلے میں ان کا موقف ہے کہ سندھ میں 10 لاکھ کے قریب لوگ بھنگ استعمال کرتے ہیں اور صدیوں سے سندھ میں بھنگ استعمال کی جاتی ہے کچھ عرصہ ہوا کہ سندھ میں بغیر کسی وجہ کے سندھ حکومت نے بند کر دی ہیں، ہم سندھ کے لوگ آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ بھنگ کی دکانیں کھولنے کے احکامات سندھ حکومت کو جاری کرو مہربانی کرکے بھنگ کی دکانیں ماضی کی طرح پورے ملک میں کھولی جائیں جو جنرل ضیا کے آنے سے پہلے پورے ملک میں کھلی ہوئی تھیں۔ جس طرح شراب کی فروخت سے حکومت کو روینیو ملتا ہے اس طرح بھنگ کی فروخت سے بھی حکومت کو اچھا خاصا روینیو ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).