انڈین وزیرِ خارجہ ایم جےاکبر جنسی ہراسانی کے الزام کے بعد مستعفی


ایم جے اکبر

انڈیا میں وفاقی وزیر ایم جے اکبر نے خواتین صحافیوں کی جانب سے ان کے خلاف لگائے جانے والے جنسی ہراسانی کے الزامات کے پیش نظر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

انڈیا میں جنسی استحصال کے خلاف می ٹو تحریک کافی شدت سے جاری ہے جس میں خواتین نے بالی وڈ، سیاست اور صحافت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والی کئی بڑی ہستیوں کے خلاف جنسی استحصال کے الزامات عائد کیے ہیں۔

مسٹر اکبر کے خلاف 20 سے زیادہ خواتین صحافیوں نے جنسی ہراسانی کے الزامات لگائے تھے اور جواب میں انھوں نے ان میں سے ایک خاتون صحافی پریا رمانی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ قائم کیا تھا۔

لیکن حقوق نسواں کے لے کام کرنے والوں اور حزب اختلاف کی جانب سے مسٹر اکبر پر مستعفی ہونے کے لیے دباؤ بڑھ رہا تھا۔

انھوں نے بدھ کی شام ایک بیان میں کہا کہ چونکہ انھوں نے انصاف حاصل کرنے کے لیے اپنی ذاتی حیثیت میں عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس لیے وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔

اس سے پہلے اتوار کو ایک تفصیلی بیان میں انھوں نے تمام الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ برس کے پارلیمانی انتخابات سے پہلے ان الزامات کے سامنے آنے سے ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک وسیع تر ایجنڈے کا حصہ ہیں۔

لیکن ہتک عزت کا مقدمہ قائم کرنے کے بعد بھی ان کے خلاف الزامات عائد کرنے والی خواتین کی فہرست بڑھتی ہی جارہی تھی۔ 20 خواتین نےکہا تھا کہ وہ پریا رمانی کے ِخلاف مقدمے میں ان کا ساتھ دیں گی اور عدالت سے درخواست کریں گی کہ ان کے بیانات کو گواہی کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

https://twitter.com/priyaramani/status/1052524253621440512

اس فہرست میں صحافی غزالہ وہاب بھی شامل تھیں جنہوں نے اپنے رد عمل میں کہا کہ ‘مسٹر اکبر کو تین دن پہلے ہی یہ قدم اٹھانا چاہیے تھا (جب وہ افریقہ کے دورے سے لوٹے تھے) آخرکار ان خواتین کی کوششیں کامیاب ہوئی ہیں جنھوں نے ہمت کر کے اپنی آپ بیتی بیان کی۔’

مسٹر اکبر کے خلاف ان الزامات کا تعلق اس دور سے ہے جب وہ دہلی میں انگریزی کے اخبار دی ایشین ایج اور کلکتہ میں دی ٹیلی گراف کے ایڈیٹر تھے۔

سماجی کارکن اور سینٹر فار پالیسی ریسرچ کی سربراہ رنجنا کماری نے کہا کہ ‘دیر آید درست آید۔۔۔ پبلک لائف میں مسٹر اکبر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور مجھے بہت خوشی ہے کہ آخرکار انھوں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔’

می ٹو تحریک کے تحت ان الزامات کے بعد انڈیا میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ بالی وڈ کے مشہور اداکار الوک ناتھ پر ایک فلم ساز نے ریپ کا الزام لگایا ہے اور انھوں نے بھی ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے۔

مسٹر اکبر کے خلاف الزامات پر وفاقی حکومت نے اب تک خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا تھا۔ گذشتہ ہفتے جب وزیر خارجہ سشما سواراج سے ان الزامات کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو وہ خاموش رہی تھیں۔

بی جے پی کی وفاقی حکومت میں اب صرف ایک مسلمان وزیر مختار عباس نقوی باقی ہیں۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق ان الزامات کی وجہ سے حکومت کی بدنامی ہو رہی تھی اس لیے مسٹر اکبر کا وزارتی کونسل میں باقی رہنا مشکل نظر آ رہا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp