کرکٹ: کھیل ایک ہے مگر مرد اور عورت کے لیے معاوضہ الگ الگ کیوں؟


کیا پاکستان میں خواتین کرکٹرز کو آج وہی مقام حاصل ہے جو مرد کرکٹرز کو ہے؟

اس کا جواب نفی میں ملے گا لیکن یہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا بھر میں مردوں کی کرکٹ مختلف وجوہات کے باعث خواتین کرکٹ سے بہت آگے ہے۔ تاہم اس کے باوجود آج پاکستان میں خواتین کرکٹرز کو پہلے سے زیادہ کھیلنے کے مواقع میسر ہیں اور ماضی کے مقابلے میں آج وہ معاشی طور پر بھی زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔

جویریہ خان خواتین کی ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ 2368 رنز بنانے والی کرکٹر ہیں۔ وہ ملائشیا میں آسٹریلوی خواتین کرکٹ ٹیم کے خلاف سیریز میں پاکستانی ٹیم کی قیادت بھی کررہی ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان میں خواتین کرکٹ کی حالت میں نمایاں تبدیلی آئی ہے لیکن ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔

’پچھلے پانچ سال کے دوران خواتین کرکٹ میں مثبت تبدیلیاں آئی ہیں جن میں کرکٹرز کو سینٹرل کنٹریکٹ دیا جانا اور غیرملکی کوچز کی تقرری قابل ذکر ہے۔ آئی سی سی نے صف اول کی آٹھ ٹیموں کی چیمپیئن شپ کا انعقاد کیا ہے جس میں کھیل کر ہمیں ایکسپوژر ملا اور کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔ ہمیں دنیا کی بہترین ٹیموں تک آنے کے لیے اپنے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنا ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ کو بڑھانا ہے۔ ہم جتنا زیادہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلیں گے ہمیں زیادہ سے زیادہ تجربہ حاصل ہو گا۔‘

مزید پڑھیے

ویمن کرکٹ ورلڈ کپ کا مقبول ترین فائنل

’کرکٹ ہی میرا پہلا پیار ہے‘

’خواتین کرکٹ کا مستقبل نوجوان کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں ہے‘

پاکستان میں خواتین کرکٹ چونکہ تجارتی نقطہ نظر سے اتنی زیادہ کامیاب نہیں ہوئی ہے لہٰذا اس میں سپانسرشپ کی کمی بھی ہے اور پیسہ بھی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں پروفیشنل کرکٹ کھیلنے والی کھلاڑیوں کی تعداد بھی محدود ہے اس کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ 20 سے 25 کرکٹرز کو سینٹرل کنٹریکٹ دے رہا ہے۔

سینٹرل کنٹریکٹ کی مد میں ان خواتین کرکٹرز کو 35، 40 ہزار روپے سے لے کر ایک لاکھ 25 ہزار روپے ماہانہ رقم ملتی ہے۔ میچ فیس تقریباً 50 ہزار روپے ہے جبکہ جیتنے پر ملنے والے بونس اس کے علاوہ ہیں۔

سابق انٹرنیشنل کرکٹر اور ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے بڑی 242 رنز کی انفرادی اننگز کا عالمی ریکارڈ رکھنے والی کرن بلوچ کے خیال میں خواتین اور مرد کرکٹرز کے معاوضوں میں فرق نہیں ہونا چاہیے۔

’خواتین کرکٹر بھی مرد کرکٹر کی طرح سبز کوٹ پہن کر اپنے ملک کی نمائندگی کر رہی ہیں بلکہ وہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی کی نمائندگی کر رہی ہیں جو خواتین پر مشتمل ہے۔ لہٰذا خواتین کرکٹرز کا سینٹرل کنٹریکٹ بھی مرد کرکٹرز کے مساوی ہونا چاہیے کیونکہ ان کے جذبات بھی وہی ہیں، محنت بھی وہی ہے۔ اس میں یہ نہ دیکھا جائے کہ خواتین کرکٹرز کتنی مشہور ہیں یا نہیں؟‘

بیگ

PCB
کراچی میں ‘ٹائٹنز چیریٹی گالا 2018’ کی تقریب میں فاسٹ بولر حسن علی ابھرتی ہوئی بہترین کھلاڑی کا ایوارڈ ڈائنا بیگ کو دیتے ہوئے

پاکستان میں خواتین کرکٹ 90 کی دہائی میں بین الاقوامی سطح پر روشناس ہوئی تھی جس کا سہرا دو بہنوں شائزہ خان اور شرمین خان کے سر جاتا ہے جنھیں جنون کی حد تک کرکٹ کا شوق تھا اور مضبوط معاشی پس منظر کے سبب انھیں اپنے شوق کی تکمیل کے لیے پریشانی نہیں ہوئی تھی۔

تاہم اس وقت پاکستان میں خواتین کرکٹ کا کوئی ٹھوس انتظامی ڈھانچہ نہ ہونے کے سبب انھیں ملک میں موجود بعض حلقوں کی جانب سے متوازی ٹیموں کا ضرورسامنا کرنا پڑا تھا۔

خواتین کرکٹ کے معاملات آئی سی سی کی چھتری تلے آنے کے بعد اب تمام کرکٹ بورڈز ہی چلارہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں خواتین کرکٹ کا علیحدہ شعبہ سنہ 2005 میں قائم ہوا تھا۔

پاکستان میں مخصوص معاشرتی اور سماجی مسائل کی وجہ سے خواتین کے لیے کھیلوں میں بھرپور انداز میں حصہ لینا کبھی بھی آسان نہیں رہا ہے لیکن وہ ان مسائل پر قابو پاتے ہوئے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے راستے نکال لیتی ہیں۔

شاہد اسلم

پی سی بی کے ویمنز ونگ کے سینیئر جنرل منیجر شاہد اسلم کہتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کی ڈیپارٹمنٹل کرکٹ بھی محدود ہے۔ صرف دو اداروں نے باقاعدہ طور پر خواتین ٹیمیں بنا کر پروفیشنل کرکٹرز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ویمنز ونگ کے سینیئر جنرل مینیجر اور سابق فرسٹ کلاس کرکٹر شاہد اسلم کہتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کرکٹ کلب کی سطح پر نہیں ہوتی لہٰذا پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس ضمن میں تعلیمی اداروں کا سہارا لیا ہے اور وہاں سے ٹیلنٹ سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔

’پاکستان کرکٹ بورڈ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ رابطے میں ہے کہ باصلاحیت بچیوں کو مرحلہ وار سکول، کالج سے یونیورسٹی تک لایا جائے، انھیں سکالرشپ دیا جائے اور ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ کرکٹ میں ان کے ٹیلنٹ کو مزید نکھارا جائے۔ اس کے علاوہ پانچ زونل اکیڈمیز بھی قائم کی جارہی ہیں تاکہ لڑکیاں صاف ستھرے اور محفوظ ماحول میں ٹریننگ حاصل کرسکیں اور ان کے والدین بھی مطمئن رہیں۔‘

پاکستان میں خواتین کی ڈیپارٹمنٹل کرکٹ بھی محدود ہے۔ صرف دو اداروں زرعی ترقیاتی بینک اور سٹیٹ بینک نے باقاعدہ طور پر خواتین ٹیمیں بنا کر پروفیشنل کرکٹرز کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ ان کے علاوہ ہائر ایجوکیشن کی ٹیم بھی قومی سطح پر مقابلوں میں حصہ لیتی ہے لیکن اس میں پروفیشنل کرکٹرز شامل نہیں ہیں۔

پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں پورے ملک سے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والی کھلاڑی شامل ہیں۔

شاہد اسلم کے خیال میں یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹیلنٹ پورے ملک میں موجود ہے۔

’صرف مالی طور پر مستحکم اور بڑے گھرانوں کی کرکٹرز ہی پاکستانی ٹیم میں شامل نہیں ہیں بلکہ متوسط گھرانوں اور ملک کے دور دراز علاقوں سے بھی تعلق رکھنے والی کھلاڑیوں نے قومی ٹیم میں جگہ بنائی ہے۔ مثلاً ڈیانا بیگ گلگت سے تعلق رکھتی ہیں اس کے علاوہ ملتان فیصل آباد اور دیگر چھوٹے شہروں سے بھی کھلاڑی سامنے آئی ہیں۔‘

پاکستان کرکٹ بورڈ نے خواتین کرکٹ ٹیم کے لیے غیرملکی کوچنگ سٹاف کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جن میں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے مارک کول ہیڈ کوچ اور آسٹریلیا کے اینڈی رچرڈز بطور اسسٹنٹ کوچ شامل ہیں۔

پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم اس وقت ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی دونوں کی عالمی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہے۔

جہاں تک انفرادی کارکردگی کا تعلق ہے تو ثنا میر ون ڈے کی بولنگ رینکنگ میں چوتھے نمبر پر ہیں جبکہ آل راؤنڈرز کی درجہ بندی میں ان کا پانچواں نمبر ہے، البتہ بیٹنگ میں کوئی بھی پاکستانی کرکٹر ٹاپ ٹوئنٹی میں نہیں ہے۔ جویریہ خان 23ویں اور بسمہ معروف 25ویں نمبر پر ہیں۔

ٹی 20 کی بولنگ رینکنگ میں انعم امین کا نمبر تیسرا ہے۔ بیٹنگ میں بسمہ معروف 16ویں نمبر پر ہیں جبکہ آل راؤنڈرز میں ثنا میر کی پوزیشن 15ویں ہے۔

پاکستانی خواتین کرکٹرز کا آنے والے دنوں میں سب سے کڑا امتحان آئندہ ماہ ویسٹ انڈیز میں ہونے والا آئی سی سی ورلڈ ٹی 20 ہے جس میں اسے اپنے گروپ میں عالمی نمبر ایک آسٹریلیا کے علاوہ نیوزی لینڈ، آئرلینڈ اور بھارت کے سخت چیلنج کا سامنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp