” استاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بنا سکتا ہے”


استاد ہونا ایسا رتبہ ہے جسے نبیوں نے معظم مانا ہے. استاد ایک اچھی نسل تیار کر سکتا ہے. جاپان میں لڑکے ایک آدمی کے سائے کے اوپر سے چھلانگ مار کے گزر رہے تھے. کسی نے پوچھا تو پتہ لگا کہ یہ استاد ہیں اور یہ سائے کے اوپر سے نہیں گزر رہے اسے یہ توہین مانتے ہیں.

ہمارے ہاں سسٹم اتنا کرپٹ ہو چکا ہے کہ استاد بھی اپنے فرائض بھول چکے ہیں. استاد خود کتاب پڑھنا بھول چکے ہیں. بار بار ٹیچر کے دفتر کے چکر لگانا اور ان کی تعریف کرنا مارکس حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے.اس کلچر میں استاد اور طالبعلم دونوں ملوث ہیں.اساتذہ کو اسے فروغ دینے کی بجائے اس کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے تھی .اپنے اور شاگردوں کے درمیان ایک حد قائم کرنی چاہئے تھی جس میں عزت کا عنصر ہوتا نہ کہ سختی ہوتی. لیکن جن دو تین اساتذہ نے یہ کلیہ اپنایا ہے ان کی کلاس میں بیٹھ کے جہنم جیسی آفات کا سامنا کرنا پڑتا ہے. کلاس اٹینڈ کرنا تو کجا حاضر ہونے کا بھی دل نہیں کرتا.

فیورٹ لِسٹ میں ہونا کسے نہیں پسند ہو گا ہر نوجوان چاہتا ہے کہ وہ گھر اور اپنوں کے درمیان سٹار بن کے گھومے وہ سب کا نورِ نظر ہو. لیکن ایک اچھا استاد ہی پہچان سکتا ہے کس شاگرد میں صلاحیتیں ہیں, کس کو تھپکی کی ضرورت ہے, اور کس کو کس مقام پر پہنچایا جا سکتا ہے.
5 اکتوبر 2018 کو 2 خود کشیاں منظرِ عام پر آئیں اس دن ٹیچرز ڈے تھا پرسنل ایشوز کی بیس پہ آپ کیسے کسی کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچا سکتے ہیں. آپ کا کام تو معمار تیار کرنا ہے اتنی بھاری ذمہ داری کیلئے اگر آپ کے کندھے تیار نہیں تھے تو خود پہ یہ بوجھ لادنا اپنے ساتھ سرا سر زیادتی ہے.

“ہمارے استاد 1947 سے اب تک ایک اچھا ایجوکیشن منسٹر نہیں بنا سکے. قوم کو ایک لیڈر نہیں دے سکے. ہمارا مافیا اتنا طاقتور ہے کہ استاد اس کے خلاف آواز اٹھانے کے قابل نہیں ہیں. پچھلے دِنوں فیس بک پر ٹیچرز ڈے پر بہت سی پوسٹس دیکھیں لیکن ہمارا سسٹم اتنا کمزور ہے کہ زبان پر سچ لانے کی بجائے چاپلوسی کو پروموٹ کرتا ہے . ہمارے والدین کو ہمارے گریڈز سے مطلب ہے اور ہمارے اساتذہ کو پیسے سے مطلب ہے. تعلیم دینا,ہنر تقسیم کرنا, اچھی نسل پروان چڑھانا,اور اس مافیا کے خلاف کھڑے ہونا’ اساتذہ کے بس کی بات نہیں تو شاگرد کہاں سے افلاطون جیسے بنیں گے جس نے سقراط کا نام سنہری حروف میں لکھا.

واصف عل واصف نے فرمایا ہے کہ :
“انسان کے پاس ایک ایسا استاد ضرور ہونا چاہئیے جس کی بات سمجھ میں نہ بھی آئے تب بھی مان لینی چاہئیے”. لیکن اب استاد کی بات مانتے ڈر لگتا ہے کیونکہ انہوں نے اس پیشے کو صرف پیسے کا ذریعہ بنا لیا ہے. میں مانتی ہوں کہ ہر پیشے سے انسان روزی کمانا چاہتا ہے لیکن اچھی قوم اور اچھے انسان کیسے تیار ہوں گے ؟؟

آدم کو انسان بنانے میں والدین کے بعد روحانی استاد کا عمل دخل ہوتا ہے. ہمارے استاد آج کہتے ہیں کہ ہم بے بس ہیں ہم اس مافیا کے ہاتھوں کھلونا بن رہے ہیں. ایسے استاد کاروبار چمکانے والی تعلیمی عمارتوں میں اپنی اپنی دوکان چمکا رہے ہیں.

خدارا !یا اس پیشے کو چھوڑ دیں یا اس کی عظمت کے حق میں کھڑے ہو جائیں اور پیسہ بنانے والی مشین بننے کی بجائے عظیم انسان بنائیں تاکہ آپ کا نام رہتی دنیا تک قائم رہے.جب استاد متحد ہو کے اس مافیا کے خلاف کھڑے ہوں گے تو شاگرد بھی آپ کے ساتھ ہوں گے اور آپ کو عزت کی نظر سے دیکھیں گے .اس ایجوکیشن مافیا سی غلاظت میں مزید دھنسنے سے بہتر ہے اپنی قوم کو مضبوط بنائیں اور اکائی بنیں. ورنہ یہ دلیل دینا چھوڑ دیں کہ ہم بے بس ہیں اس بات کو تسلیم کر لیں کہ ہم اس مافیا کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ہم نوجوان نسل کو بغاوت کیلئے تیار کر رہے ہیں. اگر پاکستان کی 40% آبادی پڑھنے کیلئے نکلی ہے تو ان میں سے ایسے ہیرے تلاش کریں جو اس مافیا کے خلاف بول سکیں.

ایک مثال یہ ہے کہ جو جس مذہب کے ساتھ پیدا ہوتا وہ اس کا مذہب ہے لیکن جب کوئی اسے چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کرتا ہے تو خامی تو اس مذہب کے پیروکار میں ہوئی. جیسے آج کل قادیانیوں کے خلاف محاظ کھڑا ہوا ہے. جو قادیانی پیدا ہوا ہے وہ تو اپنے مذہب پہ رہے گا وہ کیسے مرتد ہوا؟ مرتد تو وہ ہے جو مسلمان پیدا ہوا اور بعد میں قادیانی بن گیا لیکن اس پہ ظلم کرنا اور مار دینا کہاں کا انصاف ہے؟کیا اپنی خامی کو درست کرنا زیادہ بہتر نہیں جو دَر دَر کی لعنت سے محفوظ کر دے؟

پاکستان میں اقلیتوں کو آزادی ہے. کیونکہ سفید رنگ جھنڈے میں اقلیتوں کو ظاہر کرتا ہے اور ہرا اکثریت کی نشاندہی کرتا ہے. میں کہہ رہی ہوں کہ اگر پرچم میں جگہ دی ہے تو دل میں جگہ دینا بڑا معاملہ نہیں ہے. ہمیں اپنے کردار کو مضبوط بنانا چاہئے نہ کہ مذہب کہ آڑ میں خون و قتال شروع کر دینا چاہئے. جو بھی ہے بہر حال انسانیت سب سے بہتر مذہب ہے. ہاں تو اس مثال کا مقصد یہ تھا کہ ایک نوجوان گھر سے تو پڑھنے نکلا تھا . اگر استاد مل جاتا تو وہ دہشت گرد اور چور نہ بنتا وہ اچھا شاگرد بنتا جیسے کہ اوپر ملحد نہ ہوتے اگر اچھے پیرو کار ہوتے. تو کھوٹ کس میں ہے؟

میں نے نالائق طالبعلم کو صرف استاد کی تھپکی سے عظیم انسان بنتے دیکھا ہے اور استاد کی دھتکار اور نفرت سے قابل لوگوں کو باغی ہوتے دیکھا ہے. میں مانتی ہوں ہر شاگرد قابل نہیں ہوتا لیکن استاد جانتا ہے کسے کیسے سُدھانا ہے اور کیسے قوم کو قابل بنانا ہے. نفرت یا محبت’ محبِ وطن یا دہشت گرد’شدت پسند یا باغی ‘بادشاہ’ وزیر’شاعر’منسٹر’لیڈر’ سب ماں کی گود سے سیکھتے ہیں لیکن ان پیشوں کو استاد پروان چڑھاتے ہیں. پتھر کو کندن اگر کوئی بنا سکتا ہے تو وہ والدین کے بعد استاد ہیں. اخلاقیات پہ لیکچر ہر استاد دے سکتا ہے لیکن اخلاقیات سکھانے والی بہت کم مثالیں ملتی ہیں .


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).