عمران خان اب خوابوں کی دنیا سے باہر نکل آئیں


ہوسکتا ہے کہ ، ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے
مسائل کے حل کے لئے دوست ممالک سے رابطہ کر رہے ہیں ۔
خوشی کے سمندر میں غوطہ لگانے سے پہلے یہ جان لیجئے گا کہ اس خواہش کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان براڈکاسٹ ایسوسی ایشن (پی بی اے )اور اے پی این ایس کے وفود سے ملاقات کے دوران کیا ۔
یہ جاننے کے بعد کہ یہ الفاظ عمران خان صاحب کے ہیں تو آپ کو ان الفاظ کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا ۔ کیوں نکہ اس سے پہلے بھی بہت سے ایسے بیانات سے عمران خان کی سیاسی زندگی بھری پڑی ہے ۔عمران خان خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور خواب دیکھتے دیکھتے حقیقت سے بہت دور نکل جاتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد پی ٹی آئی کے دوسرے نمائندے اپنے لیڈر کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں ، لیکن اب عمران خان کو کنٹینر کی سیاست سے باہر آجانا چاہیے۔ حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ صرف سیاسی بیان بازی سے ملک نہیں چلا کرتے ۔ملک کو چلانے کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ اب صرف ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نہیں بلکہ مملکت پاکستان کے بھی سربراہ ہیں ، ان کی بات میں وزن ہونا چاہیے ۔انھیں کچھ بھی بولنے سے پہلے “پہلے تولو پھر بولو” کے مطابق کام کرنا ہوگا ۔ یاد رہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے تو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے متعلق بہت واضح پالیسی پیش کردی ہے، اور نومبر میں آئی ایم ایف کی ٹیم سے میٹنگ بھی طے ہے، اس کے بعد یہ بیان موجودہ غیر یقینی حالات میں کسی مذاق سے کم نہیں یعنی ملک کی معاشی صورتحال کا تمام معاشی ماہرین عوام اور وزیر خزانہ کو بخوبی اندازہ ہے ۔ نہیں جانتے تو ہمارے وزیراعظم نہیں جانتے یا پھر اس طرح کی بیان بازی کرکے وہ عوام کو پھر امید کا لالی پاپ تھمارہے ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت ابتدا ہی سے اپنے وعدوں اور ان پر عمل درآمد کے معاملے میں غیریقینی کی صورتحال کا شکار رہی ہے ۔ عمران خان نے کنٹینر اور اپنی انتخابی مہم کے دوران جو تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا موجودہ صورتحال میں کسی سراب سے کم نظر نہیں آتا ۔

ایک غوطہ خور کو سمندر کی گہرائی کا اندازہ سمندر میں اترنے کے بعد ہی ہوتا ہے بالکل اسی طرح حکومت وقت کو بھی حکومت کی باگ دوڑ سنبھالنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوجانا چاہیے کہ صرف دعوو¿ں اور وعدوں سے حکومتیں نہیں چلتیں۔ حکومت خیالی پلاؤ پکا کر عوام کا خالی پیٹ نہیں بھر سکتی۔ یہ وہی عوام ہے جو ماضی کے حکمرانوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔ عمران خان کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ صرف اپنی طلسماتی شخصیت اور بڑے بڑے خوابوں سے اب عوام کو مزید بے وقوف نہیں بنا سکتے ۔ اب شخصی سیاست کا نہیں عملی سیاست کا وقت آچکا ہے۔ درحقیقت لیڈر وہ ہوتا ہے جو حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرے نہ کہ صرف زبانی جمع خرچ سے ہی عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے ۔ جیسا کہ کراچی کی ایک مقبول سیاسی جماعت ایم کیوایم کے لیڈر کے ساتھ ہوا، انھوں نے بھی عوامی مقبولیت کی بلند ترین سطح کو چھوا لیکن انکی اپنی ہی زبان نے انھیں عرش سے فرش پر پہنچا دیا۔
خان صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنے طرز سیاست پر غور کرتے ہوئے سیاست دان نہیں، لیڈر بننے کی کوشش کریں ۔ پاکستان کی عوام نے بڑی امید ، نئے پاکستان اور ایک موثر تبدیلی کی خواہش میں عمران خان صاحب کو چنا ہے ۔لیکن اگر وزیر اعظم صاحب نے اپنی اس طرح کی بچکانہ، غیر سیاسی بصیرت اور حقیقت سے برخلاف بیانات سے اجتناب نہ کیا تو نہ صرف عوام غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوں گے بلکہ عوام میں عمران خان صاحب کی مقبولیت اور ان پر عوام کا اعتماد بھی ختم ہوجائے گا ۔اور وہ تبدیلی جس خواب کی تعبیر ابھی تک عوام کو نہیں ملی اسکا حصول ناممکن ہوجائے گا ، جس طرح کی موجودہ تبدیلی پاکستان میں آئی ہے ، وہ فی الحال تو ماضی کی طرح صرف چہروں کی تبدیلی ہی معلوم ہوتی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).