ڈیجیٹل آرٹسٹ شہزل ملک: ’کوئی نہیں جانتا ایک جوان پاکستانی عورت کی زندگی کیسی ہے‘


’میں بطور فنکار ایک عورت ہوں، اس لیے میں دنیا کو بھی ایک عورت کی نظر سے دیکھتی ہوں۔ اب دنیا اس موڑ پر آ گئی ہے کہ عورتوں کی کہانیوں کو اہمیت دی جا رہی ہے۔‘

یہ خیالات ہیں پاکستان کی نوجوان گرافک ڈیزائنر شہزل ملک کے، جن سے میری ملاقات تب ہوئی جب میں ان کا انٹرویو کرنے لاہور میں ان کے گھر گیا۔ جب میں ان کے آرٹ سٹوڈیو میں داخل ہوا تو مجھے ان کے ذوق نے متاثر کیا۔ جب میں نے اس جگہ کی تعریف کی تو انھوں نے بتایا کہ یہ جگہ پہلے ان کی بہن کے پاس تھی، جو خود بھی آرٹسٹ ہیں۔

وہ ہنس کر بولیں: ’لیکن اچھا ہے ان کی شادی ہوگئی۔ اسی طرح یہ جگہ میرے پاس آئی۔‘

شہزل ملک

یہ بھی دیکھیے

‘جو مخالف تھے وہی اب حوصلہ افزائی کرتے ہیں’

‘سبز پاسپورٹ کے ساتھ بھی دنیا دیکھی جا سکتی ہے’

’لوگوں کے پاس آئیڈیا تو ہے مگر ہنر نہیں ‘

‘مجھے ہمیشہ سے ڈراؤنی فلمیں دیکھنے کا شوق تھا’

شہزل نے سنہ 2010 میں بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی سے گریجویشن کی اور ماسٹرز کرنے امریکہ گئیں۔ وہ 2014 میں واپس لوٹیں اور تب سے وہ لاہور میں ہی کام کر رہی ہیں۔

’میرے فن پاروں میں جو عورتیں ہیں وہ خاموش یا شرمندہ نہیں، بلکہ آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ میرا آرٹ ہمیسشہ پاکستان اور پاکستانی خواتین اور ان کی زندگیوں کے بارے میں رہا ہے۔’

پڑھائی ختم کرنے کے کچھ عرصہ بعد انھوں نے ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں بطور آرٹ ڈائریکٹر کچھ عرصے کام کیا، لیکن ان کی دلچسپی اس شعبے سے زیادہ سماجی کاموں اور معاشرتی مسائل کے حل تلاش کرنے میں تھی۔

‘میرا مقصد ہمیشہ کام کرنے کے ساتھ یہ تھا کہ کوئی بامعنی کام کروں جس سے میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار بھی کر سکوں۔ اس لیے اب میں صرف اسی کام کا انتخاب کرتی ہوں یا پھر انھی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتی ہوں جن کا اپنا ایک اخلاقی نظریہ ہوتا ہے، جو معاشرے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہوتے ہیں، جیسے کہ نان پرافٹ ادارے۔’

شہزل سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن پر یہاں کے لوگ بات نہیں کرتے، وہ اپنے آرٹ کے ذریعے ان پر روشنی ڈال سکتی ہیں۔ ان کے مطابق وہ ایسے موضوعات پر، جن کے بارے میں لوگوں کی پہلے سے ایک رائے بنی ہوئی ہے، عوام کو ایک دوسرا نقطہ نظر پیش کرنا چاہتی ہیں۔

’میرا کام میری شخصیت کے ساتھ ہی چلتا ہے۔ میں ایک عورت ہوں تو میں دنیا کو بھی ایک عورت کی نظر سے دیکھتی ہوں۔ اب دنیا اس موڑ پر آ گئی ہے کہ عورتوں کی کہانیوں کو بھی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ہم سننا چاہتے ہیں کہ عورتوں کا دوسرا نقطہ نظر کیا ہوتا ہے۔ اسی لیے میرا آرٹ بھی اسی طرف چلا جاتا ہے اور میرے خیالات بھی ایک فیمینسٹ نظریے کے ساتھ ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘

’جب میں امریکہ سے واپس آئی تو میرے کام میں خودبخود تبدیلی آئی۔ اب میں دکھانا چاہتی ہوں کہ ایک جوان پاکستانی عورت کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ اگر بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو واقعی ایک بہت بڑی خلا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ ہماری زندگی کیسی ہے۔‘

’پاکستان میں رہتے ہوئے نوجوانوں کو لگتا ہے کہ وہ ایک بلیک ہول میں ہیں اور کوئی نہیں دیکھ رہا کہ آپ کی زندگی کیسی ہے۔ مگر درحقیقت بات یہ ہے کہ لوگ آپ کی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ لوگ ہالی وڈ کی کہانیوں سے بھی اکتا گئے ہیں اور اب ہماری کہانیوں کی باری ہے۔‘

’میرے لیے بھی یہ ایک دلچسپ بات تھی کہ میں اپنی زندگی کے بارے میں کیا باتیں کر سکتی ہوں جو میں نے خود اپنے بچپن میں نہیں پڑھیں۔ وہ سنجیدہ باتیں بھی ہوتی ہیں اور مزاحیہ بھی۔‘

’جب میں امریکہ سے واپس آئی تو میرے لیے باہر نکلنا مشکل ہو گیا تھا۔ امریکہ میں آپ چل پھر سکتے ہیں، کوئی آپ کو دیکھتا نہیں ہے، پبلک ٹرانسپورٹ بھی آسان ہے۔ آپ پاکستان واپس آتے ہیں تو وہی ڈر، لڑکی ہو تو کیا پہنا ہے اور باہر کیوں جانا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ ہے ہی فضول کیونکہ ہم نے کوئی انفراسٹرکچر بنایا ہی نہیں ہے۔ پیدل بھی نہیں چل سکتے، موسم ہی اس طرح کا نہیں ہے۔‘

’کافی مسئلے ہیں جو میں ذاتی طور پر محسوس کرتی ہوں اور میں ویسے ہی ان کے بارے میں ڈرائنگ بناتی رہی تھی۔ مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ ہمارے لوگ ان چیزوں کو اتنا محسوس کرتے ہیں، خاص طور پر اگر کوئی لڑکی ہو تو اپنے تحفظ کے بارے میں سوچنا ہے۔ لیکن یہ صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ باہر کے ممالک میں بھی ہوتا ہے۔‘

اپنے فن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ بہت سے باتیں ایسی ہیں جو آپ آرٹ کے ذریعے کہہ سکتے ہیں، جو عام طور پر نہیں کی جا سکتیں۔‘

’ایسی گفتگو جو آپ یا تو بڑوں کے درمیان بیٹھ کر نہ کر سکیں، یا اگر وہ سننا ہی نہیں چاہیں، تو آپ اپنے آرٹ کے ذریعے کہہ سکتے ہیں۔ آپ کو بھی کچھ نہیں کہنا پڑتا اور آپ کی شکل بھی سامنے نہیں آتی۔اکثر لوگ آپ کی حوصلہ شکنی بھی کرتے ہیں، کہتے ہیں ’یہ چھوٹی ہے‘ وغیرہ جبکہ آرٹ میں آپ اپنا کام دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیں اور وہ خود اس سے معنی اخذ کرسکتے ہیں۔‘

’میرے شاگرد بھی حساس موضوعات پر ڈرائنگ بناتے تھے، مگر میں انھیں مشورہ دیتی تھی کہ ابھی اس کو شائع نہ کرو، کیونکہ پاکستان میں ہر سنجیدہ موضوع ممنوع ’ٹیبو‘ بن جاتا ہے۔ یہ کوئی مذاق کی بات نہیں کہ آپ نے انٹرنیٹ پر ڈال دیا اور بس بات ختم۔ اس کے آپ کی زندگی کو فرق پڑ سکتا ہے۔‘

’میرے والدین بھی دیکھتے ہیں کہ میں کیا بنا رہی ہوں اور ان کو بھی خوف ہوتا ہے کہ میں کوئی لائن کراس نہ کروں۔ مگر آرٹ کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ کچھ حدیں پار ہوں تاکہ معاشرے میں پھر اس موضوع پر بات ہو۔‘

وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان میں کسی چیز پر تنقید کرنا کافی مشکل ہے۔ ’یہاں انفرادی آزادی بہت کم ہے اور صرف ایک آرٹسٹ ہونے کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک عام شہری کے لیے بھی۔ اگر آپ اپنا حق مانگنے کا سوچ رہے ہیں تو پہلی چیز آپ کے ذہن میں یہ آتی ہے کہ کیا آپ کو اپنا حق ملے گا، اور کیا کوئی سننے والا ہے بھی یا نہیں؟‘

’مجھے تو لگتا ہے کہ ہمارا معاشرے میں اب برداشت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ میرے والدین کے زمانے میں جو چیزیں تھی وہ مجھے بڑے ہوتے ہوئے اس ملک میں نہیں ملیں۔ میں سوچتی ہوں کہ جب ہمارے بچے ہوں گے ان کی زندگی کیسی ہو گی۔ کیا ان کو بھی ہم باہر جانے سے روکیں گے؟ کیا انھیں بھی ہر چیز سے ڈر لگے گا؟ اب یہ ہم نوجوانوں پر ہے کہ ہم معاشرے کو کیسے بناتے ہیں۔‘

’ہم ایسے معاشرے میں نہیں رہ سکتے جس میں اظہار رائے کی آزادی نہ ہو۔ ایک آرٹسٹ ہو کر بھی میں دس دفعہ سوچتی ہوں کہ آیا میں یہ لکھ سکتی ہوں؟ کیا اس سے میری فیملی پر کوئی برا اثر تو نہیں پڑے ہو گا؟‘

اپنی ایک سیریز ’براؤن از بیوٹی فل‘ کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’میں جو عورتیں بنا رہی ہوں وہ چھوئی موئی جیسی یا خاموش اور شرمندہ نہیں۔ میری عورتیں آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی ہوتی ہیں یا پھر میرے کام میں کچھ ایسا لکھا ہوتا ہے جس سے وہ آپ سے سوال کر رہی ہوتی ہیں یا اپنی شناخت کے بارے میں بات کر رہی ہوتی ہے۔‘

’میرے کام پر لوگ عام طور پر اتنی تنقید نہیں کرتے، مگر حال ہی میں میں نے ایک فن پارہ بنایا تھا جس پر لوگوں نے کافی تنقید کی تھی کیونکہ اس میں ایک برقعے والی خاتون تھیں۔ اس پر لوگ بہت جذباتی ہو گئے۔ لیکن میرے خیال میں میرا وہ پیغام صحیح ہے اور یہ آپ کو سوچنا چاہیے کہ آپ کو اس پر غصہ کیوں آتا ہے؟‘

’اب میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ معاشرے کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالوں اور کچھ ایسا کروں جس کا معاشرے پر کوئی اثر بھی پڑے۔ مجھے بوائز سکاوٹس کا ایک قول بہت پسند ہے، کہ ’کہیں جاؤ تو اس جگہ کو پہلے سے بہتر حال میں چھوڑو‘ نہ کہ ادھر گند پھیلا کر چلے جاؤ۔‘

تصاویر بشکریہ: شہزل ملک


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp