یہ فن میرے ساتھ ہی قبر میں چلا جائے گا: ہڈی تراش فنکار شاہنواز


ہڈی تراش شاہنواز خان

‘انڈیا میں یہ فن آج بھی عروج پر ہے، مگر مجھے لگتا ہے میرا یہ فن میرے ساتھ ہی قبر میں چلا جائے گا۔’

یہ کہنا ہے لاہور کے 68 سالہ ہڈی تراش شاہنواز خان کا، جن کا تعلق فنکاروں کی اس نسل سے ہے جو کم اجرت میں زیادہ محنت کرتے ہیں۔ وہ 17 سال کی عمر سے ہڈیوں کو تراش کر نمائشی اشیا بنا رہے ہیں، مگر انھیں لگتا ہے کہ وہ آج بھی وہیں ہیں جہاں پر پہلے دن تھے۔

’میری بیوی، بیماری سے کم اور غربت سے زیادہ مری۔ علاج کا انتظار کرتے کرتے وہ دنیا چھوڑ گئی۔ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ نہ میں اسے ہسپتال لے جا سکا نہ اسکا علاج کروا سکا۔‘

اسی بارے میں مزید

فنکار اتنی کسمپرسی میں کیوں مرتے ہیں؟

نوٹنکی کی روایت کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں فنکار

کرفیو نے خطاط بنا دیا

شاہنواز وہ فنکار ہیں جن کا پورا دن ایک مشین سے دوسری مشین پر ہڈیوں کو کاٹتے، اور انھیں تراش کر دلفریب نمائشی اشیا میں ڈھالتے گزر جاتا ہے۔ دن کے اختتام پر ان کی محنت کا صلہ بس چند لال نوٹ ہی ملتے ہیں۔

ہڈی سے بنے فن پارے

شاہنواز کہتے ہیں کہ ان کے فن کی اصل قیمت شو روم والا لے جاتا ہے

شاہنواز بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان مہاجر ہے۔ ان کے تایا دہلی کے لال قلعے میں ہڈیاں تراش کر ان سے نمائشی اشیا بناتے تھے۔

’لال قلعے میں اس فن کی بہت مانگ تھی۔ وہاں اس فن کے 50،50 کاری گر تھے جن کی بنائی اشیا ہاتھوں ہاتھ بک جاتی تھیں۔‘

شاہنواز بتاتے ہیں کہ ان کے تایا ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تو اپنے ساتھ ہڈیوں سے نمائشی اشیا بنانے کا فن بھی لیتے آئے۔ پاکستان میں ان کا خاندان پہلے کراچی میں قیام پذیر ہوا اور پھر لاہور آ بسا۔ لاہور آ کر شاہنواز نے اپنے تایا سے سیکھے فن کو اپنایا اور کام کرنے لگے۔ شاہنواز نے بتایا کہ پہلے پہل وہ ہاتھی دانت پر کام کیا کرتے تھے۔

’مغلیہ دور حکومت میں ہاتھی دانت پر نقش و نگار بنائے جاتے تھے۔ انڈیا میں بھی ہمارے خاندان نے ہاتھی دانت پر کام کیا، مگر امریکہ کی طرف سے ہاتھی دانت کی چیزوں پر پابندی لگنے کے بعد ہم نے جانوروں کی ہڈیوں سے نمائشی اشیا بنانا شروع کر دیں۔‘

ہڈی سے تراشا گیا فن پارے

شاہنواز جنگلی جانوروں کے نقش بنانے میں مہارت رکھتے ہیں جنھیں ‘شکار پیس’ کہا جاتا ہے

شاہنواز نے بتایا کہ وہ اونٹ، بکرے اور بونگ کی پاک صاف ہڈی پر کام کرتے ہیں۔ ان ہڈیوں کو وہ خود بھی بازار سے لاتے ہیں اور کچھ لوگ بھی دے جاتے ہیں۔ بونگ کی ہڈی انھیں دو ہزار روپے فی بوری ملتی ہے جبکہ اونٹ کی ہڈی لمبی اور بڑی ہوتی ہے لہٰذا اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ اس بوری کو 35 سو روپے خریدتے ہیں۔

خریدی ہوئی تازہ ہڈی کو دھوپ میں سکھانے کے بعد پہلے کاٹا جاتا ہے اور پھر مختلف مشینی اوزاروں سے اس پر خوشنما نقش و نگار بنائے جاتے ہیں، پھر انھیں پالش کیا جاتا ہے۔ عموماً ان نقش و نگار میں جانور بنائے جاتے ہیں، جن میں شیر، ہرن، عقاب، اور دیگر جنگلی جانور ہوتے ہیں ایسے فن پاروں کو ’شکار پیس‘ کہا جاتا ہے۔‘

شاہنواز کے بنائے گئے فن پارے بیرون ملک بھی جاتے ہیں، جن میں اٹلی، چلی، میکیسکو کے علاوہ بہت سے دوسرے ممالک شامل ہیں، مگر انھیں اجرت بہت قلیل ملتی ہے۔

’ایک شکار پیس ڈیڑھ سے دو گھنٹوں میں تیار ہوتا ہے۔ اس پیس کی قیمت سو روپیہ دی جاتی ہے جبکہ شو روم کا مالک اسے ہزار 12 سو میں آگے بیچتا ہے۔‘

شاہنواز خان

آدھی صدی بیت جانے کے باوجود شاہنواز کے حالات نہیں بدلے۔ ’گلی میں سب کے مکان بنے ہیں، سوائے میرے۔‘ شاہنواز نے بتایا کہ ان کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ بڑا بیٹا شادی کر کے بیرون ملک چلا گیا اور پھر خبر نہ لی۔ جوان بیٹیوں کی شادی کے لیے انھوں نے کمیٹیاں ڈال رکھی ہیں، جو بمشکل ہی پوری ہوتی ہیں۔ دن بھر محنت کے بعد چھ سو روپیہ ملتا ہے۔ ’چھ سو روپے میں کیا بنتا ہے؟‘

وہ کہتے ہیں: ’جو نمائشیں لگاتے ہیں کمائی تو ان کی ہے، ہم بنانے والوں کی کوئی کمائی نہیں۔ کراچی میں اس فن کے جاننے اور کرنے والے بہت تھے لیکن سب مر گئے، کسی کو کینسر ہو گیا کسی کو دمہ، کسی کو کس بیماری نے گھیرا۔

’سات ماہ سے خود میرے ہاتھوں کے جوڑوں میں درد ہے، کام کرنا مشکل ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آپ گردن جھکا کر کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے مہروں کے درد میں مبتلا ہیں، آپ کا علاج بہت مہنگا ہے۔‘

ہڈی تراشنے کے دوران اڑنے والے غبار سے انھیں پھیپھڑوں کی بیماری نے بھی گھیر رکھا ہے جس کی وجہ سے سانس کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شاہنواز نے بتایا کہ ان کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ اپنا علاج کروا سکیں۔

ہڈی تراش شاہنواز خان

شاہنواز کو لگتا ہے کہ ان کے ساتھ ہی یہ فن بھی دم توڑ جائے گا

’اگر اس کام میں آمدنی نظر آئے تو بچے بھی اسے اپنائیں۔ لوگ اس فن کو سیکھنا نہیں چاہتے جو یہ کام سیکھنے کے لیے آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ سے کام سیکھیں گے لیکن آپ سکھانے کا کتنا معاوضہ دیں گے؟ یعنی لوگ اب فن سیکھنے کے پیسے مانگتے ہیں۔ اب میں چھ سو روپیہ میں سے خود کتنے رکھوں اور شاگردوں کو کتنے دوں؟‘

انڈیا میں یہ فن آج بھی عروج پر ہے، وہاں بنانے والے بھی بہت ہیں اور اس کو سراہنے والے بھی بہت۔ مگر پاکستان میں یہ فن اب دم توڑ رہا ہے،اور شاہنواز کو لگتا ہے کہ ان کے فن کی سانسیں بھی انھی سے جڑی ہیں اور ان کی موت کے ساتھ ہی ان کے فن کی بھی سانسیں رک جائیں گی۔

تاہم وہ حکومت سے امید رکھتے ہیں کہ اگر ان کی مالی معاونت کی جائے تو وہ اس فن کو اگلی نسلوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp