خالد سہیل اور رابعہ الربا کی کتاب ‘درویشوں کا ڈیرہ’ پر تبصرہ


کہتے ہیں گولی اس وقت چلتی ہے جب مکالمہ رک جاتا ہے – شاید پاکستان میں بھی اس لئے اتنی گولی چلتی ہے کہ وہاں مکالمے پر جمود طاری ہے – ہر سطح پر سینسر شپ خیالات کو آگے بڑھنے سے روک رہی ہے – خوف کا یہ عالم ہے کہ انسان اپنے سے گفتگو نہیں کر پا رہا دوسروں سے کیا کرے گا – اس ماحول میں اگر ایک خاتون اپنے کسی مرد دوست سے مکالمہ کرسکے تو اس کی بہادری پر داد دینی چاہیے –

انسان کی بنیادی ضرورتوً ں میں انسانی رشتے بہت اہمیت کے حامل ہیں – اگر یہ نہ ہوں توفرد کو اپنا آپ بھی نہیں دکھائی دے پاتا – جب دو افراد مکالمے کی بنیاد پر جڑتے ہیں تو زندگی مکمل لگنے لگتی ہے – مرد اور عورت کا مکالمہ تو ویسے بھی بہت ابہام کا شکار ہے – نہ مرد عورت کو سمجھ پا رہا ہے اور نہ عورت مرد کو – ایسے میں مکالمہ ہوجاۓ تو جیسے کوئی معجزہ ہوگیا.

خالد سہیل صاحب اور رابعہ الربا صاحبہ نے اس معرکے کو اس خوش اسلوبی سے نبھایا کہ جیسے لگا کہ کوئی اختلاف راۓ تھا ہی نہیں – حالانکہ مشرق و مغرب کا فرق – عورت اور مر د کا فرق – نظریات کا فرق – تجربات کا فرق – اختلاف الراۓ کی بہت سی وجوہات ہوسکتی تھیں – مگر جیسے دونوں نے اختلاف الراۓ پر اتفاق کر لیا ہو – دونوں نے اپنے اپنے خیالات کو اچھی طرح سے بیان کیا اور دوسرے کے خیالات کو اچھی طرح سے سمجھنے کی کوشش کی – اگر آپ کوئی بات کہیں اور دوسرا اس کو نہ صرف غور سے سن لے بلکہ سمجھ بھی لے تو اس بات کا مزہ ہی الگ ہے – جیسے آپ کی تنہائی دور ہو گئی ہو –

رابعہ کی تحریر میں سوچ کی آزادی اورقدموں کی بندش کا احساس رہا – جو کہ پاکستانی عورت کی صلاحیت اور اس کی سماجی حیثیت کی آئینہ دار رہی – ان کی افسانہ نگاری نے ان کو اپنے جذبات کے اظہار میں کافی مدد فراہم کی – جس سے انہوں نے پاکستان میں رہنے والی عورت کے خواب اور حقیقت کے درمیان فاصلوں کو اجاگر رکھا – سہیل صا حب نے رابعہ کو اپنی تحریروں کے ذریعےوہ دوربین فراہم کی جس سے خواب اور حقیقت کے درمیان فاصلہ کم ہو سکے –

خالد سہیل کی گفتگو میں زندگی کی جستجو اورتجربے کا امتزاج رہا – جیسے ان کو پرکھ لینے کے بعدبھی اور جاننے کی پیاس باقی ہے – رابعہ الربا نے ان کو وہ پل فراہم کیا جس سے گزر کر وہ اپنے پرانے وطن کی ثقافت کے ماضی حال اور مستقبل سے جڑسکیں اور اپنی تشنگی کے احساس کو کم کرسکیں –

مجھ جیسے لوگ خوش نصیب ہیں کہ مغرب میں رہتے ہوے ہم خیال لوگوں کا حلقہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں –کیونکہ جب ہم یہاں آتے ہیں تو وہی ذہنی آزادی اور پیروں کی بندش ذہنی بندش اور قدموں کی آزادی میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کو ختم کرنے میں یہی ہم خیال لوگ مکالمے کے ذریعے ایک دوسرے کو ذہنی بالیدگی مہیا کرپاتے ہیں – مگر یہ کسک ہمیشہ دل میں رہتی ہے کہ کاش ایسی فضا مشرق سے بھی قائم کرسکیں –

سہیل صاحب سے میری دوستی ان کی ایک کتاب Love Sex and Marriage سے شروع ہوتی تھی – جس میں انہوں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ مشر قی خواتین سے دوستی میں یہ مسئلہ ہے کہ ان سے منسلک مرد ناراض ہوجاتے ہیں – مجھ کو اپنی اس خوش نصیبی کا احساس تھا کہ میرے ساتھ ایسا نہیں ہو گا تو میں نےاسی خیال سے دوستی کا ہاتھ ان کی طرف بڑھایا – اور ان سے مرد اور عورت کی دوستی پر مکالمے کا آغاز کیا جس کا ایک مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو مرد اور عورت کی دوستی کے امکان پر یقین دلایا جاۓ –خالد سہیل صاحب نے اس بات کا ذکر ‘درویشوں کا ڈیرہ’ کے خواب ناموں میں بھی کیا ہے۔ اس مکالمے میں میرے اور سہیل صاحب کے خاندان کے لوگ اور احباب شامل ہوتے چلے گئے اور ایک کاروان بنتا چلا گیا –

مغرب میں آکر سمجھ آگیا تھا کہ دوستی ‘ محبت’ سیکس ‘شادی اور بچہ پیدا کرنا جن کو ہم ایک سمجھتے آئے تھے کافی علیحدہ چیزیں ہیں- یہ چیزیں ایک جگہ ضرور اکٹھی ہو سکتی ہیں – مگر ضروری نہیں کہ اگر ایک موجود ہو تو دوسری بھی موجود ہو – اس بات کی جانکاری بھی قدرے آسان تھی مقابلتا اس خیال کو اپنے جذبات اور زندگی کا حصہ بنالینا – اگر ایسا ہو جاۓ تو مرد عورت کا کوئی بھی رشتہ بہت آسان ہوسکتا ہے خاص طور پر دوستی کا- جو بقول سہیل صاحب ایک کیک کی طرح ہے باقی تو آیسنگ یا ٹوپنگس ہیں – ہیں تو اچھی بات ہے نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں دوستی کا کیک تو ہے –

انفارمشن ٹیکنالوجی کی مہربانی جس سے انسان وہ تعلقات تشکیل دے پا رہا ہے جس کی بے انتہا ضرورت تو تھی مگر امکان قدرے کم تھا – ایک ایسے دور میں جب ہر فرد صرف اپنی کہنا چا ہتا ہے اور دوسرے کی سننا نہیں چاہتا خالد سہیل اور رابعہ الربا کا مکالمہ تخلیق کرلینا قابل ستائش ہے اور قابل تقلید بھی –

دونوں سلامت رہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).