ایک رنڈی کے لئے اتنا واویلا؟ لاحول ولا قوۃ۔۔۔


\"irshadکچھ دیر قبل ایک ای پٹیشن پر دستخط کیے اور اسے اپنے فیس بک پر اپ لوڈ کیا تو ایک حضرت کا تبصرہ آیا: ایک رنڈی کے لئے اتنا واویلا؟

یہ محض ایک توہین آمیز یا رکیک جملہ نہیں بلکہ اس خبث باطن کا بے لاگ اظہار ہے جو ہم سب نےاپنے اپنے دلوں میں چھپایا ہوا ہے۔ کچھ لوگ اس کا بے خوفی سے اظہار کردیتے ہیں اور کچھ ملفوف طریفے سے۔ حقیقت یہ ہے عورتوں کے بارے میں ہمارے اجتماعی خیالات کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔

مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کے سینئڑ حافظ حمداللہ نے جس بے باکی اور بے خوفی سے ماروی سرمد کی ایک ٹی وی شو میں تذلیل کی وہ ہمارے اجتماعی رویے اور مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر چند دن قبل محترمہ شیریں مزاری کی قومی اسمبلی میں ہونے والی توہین اور تذلیل برداشت نہ کی جاتی۔ وزیزاعظم نوازشریف خواجہ محمد آصف کے لتے لیتے۔ سپیکر ایاز صادق ان کی اسمبلی رکنیت علامتی طور پر ہی سہی معطل کردیتے اور نون لیگ کے ارکان اسمبلی بالخصوص خواتین کھسیانی ہنسی ہنس کر اس معاملے کو ٹال نہ دیتی بلکہ خواجہ آصف سے معافی کا مطالبہ کرتیں تو آج حمیداللہ جیسے سیاستدانوں کو یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ سرعام ایک عورت کی شلوار اتارنے کی بات کرتے۔

بدقسمتی سے مذہب کے علمبرداروں اور بالخصوص اسلامی نظریاتی کونسل والوں نے قسم کھارکھی ہے کہ وہ عورتوں کے خلاف قانون سازی کی تجاویز دینے کے علاوہ کوئی دوسرا ڈھنگ کا کام نہیں کریں گے۔ چنانچہ مولانا شیرانی کی سربراہی میں قائم اسلامی نظریاتی کونسل ایک مذاق بن چکی ہے جو آئے روز کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر میڈیا کی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے بارے میں ہمارا موجودہ رویہ محض راتوں رات تشکیل نہیں پایا بلکہ اس کے پس منظر میں صدیوں کی روایات اور عورتوں کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک کی ایک لمبی تاریخ کارفرما ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کو ایک ہی تعلیم دی گئی کہ عورت کا کام بچے جننا اور رسوئی سنبھالنا ہے۔ وہ ایک کامل انسان ہے ہی نہیں۔ مردوں کی طرح سوچ سکتی ہے نہ عمل ۔ فیصلہ کرنے کی اس میں استعداد ہے اور نہ جرأت۔ افسوس!عورتوں کی اکثریت نے بھی اس سوچ کے آگئے ہتھیار ڈال دیئے اور وہ اسے اپنا مقدر سمجھ کر قانع ہو گئیں۔

وقت بدل چکا ہے ۔ خاص کر حالیہ ٹیکنالوجیکل انقلاب نے دنیا کو حقیقی معنوں میں ایک عالمی گاؤں کی شکل دے ڈالی ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی انگڑائی لے رہاہے ۔ حقوق اور فرائض کے روایتی تصوارت کی تشکیل نو ہورہی ہے۔ خواتین بالخصوص شہروں میں زیادہ آزادیاں اور مساوی حقوق مانگ رہی ہیں۔ روایتی ملؔا اور اس کے ہم نوا کوئی راستہ نکالنے کے بجائے’’برائی کی اس دیوی‘‘ کو سات پردوں میں مقفل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسے کوئی دیکھ نہ سکے۔ کیونکہ اس طرح شہریوں کے جذبات بھڑک جاتے ہیں اور ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ انہیں اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا اور وہ انہیں اپنے عقد میں لینے کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں۔

چھوٹے موٹے واقعات پر آسمان سر پر اٹھانے والے عورتوں پر تیزاب پھینکنے یا انہیں زندہ جلا دینے کے واقعات پر لب کشائی کی زحمت تک گورا نہیں کرتے۔ اگر کوئی’’بھنگی‘‘ غلطی سے اوراق مقدسہ کو چھو بھی جائے تو ان کی بستیوں کی بستیوں اجاڑ دی جاتی ہیں۔ بغیر تحقیق کے ہجوم بے قابو ہوجاتا ہے اور قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے لیکن کسی بہن اور بیٹی کی آبروریزی ہو جائے۔ باپ یا ماں کے ہاتھوں زندہ جلا دی جائے تو ہمارے جذبات میں کوئی ارتعاش پیدا ہوتا ہے نہ غیرت ملی بیدار ہوتی ہے۔ محلے والے اظہار افسوس کرنے کے بجائے مظلومہ کے کردار کو اس حادثے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں اور مجرموں کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھتی۔

یہ طالب علم گزشتہ چالیس بیالیس برس سے ریگولر نماز جمعہ پڑھتا ہے اس دوران کبھی خطبہ جمعہ میں یہ سننے کو نہیں ملا کہ بھائیوں عورتوں کی عزت کرو۔ ان سے مشورہ کیے بغیر فیصلے نہ کرو۔ راستہ چلتے ہوئے انہیں مت گھورو۔ آئی ایٹ مرکز اسلام آباد کی مسجد میں جب بھی جمعہ کی نماز پڑھی مولانا صاحب کی تقریر کا بڑا حصہ عورتوں کی تذلیل پر مشتمل پایا۔ وہ انہیں بے حیائی اور فحاشی کا پیکر قراردیتے ہیں۔ مردوں کو اکساتے ہیں کہ عورتوں کو گھروں میں روکو۔ انہیں روزگار کے لیے نہ جانے دو۔

اس مرتبہ حافظ سعید نے نماز جمعہ کا خطبہ ارشادفرمایا۔ اس کے بعد دفاع پاکستان کونسل کا جلسہ ہوا۔ اس میں بھی مغرب کو کھری کھری سنائی گئی۔ کلچر ل یلغار کے آگے بندھ باندھے کی دہائی بھی دی گئی لیکن ایک لفط تک ایسا نہیں سنا گیا جس میں خواجہ آصف یا حمداللہ جیسے لوگوں کی مذمت کا شائبہ تک پایا جاتا ہو۔

مسئلہ صرف ماروی سرمد یا شیریں مزاری کے ذاتی وقار اور عزت نفس کی بحالی کا نہیٍں بلکہ اس ملک کی عورت کے تقدس کا ہے۔ آج ہم اس طرزعمل کی مذمت نہیں کریں تو ہماری بچیوں اور بہنوں کو کوئی راہ چلنےنہیں دے گا۔ گلی کے لفنگے ان کی راہ روکیں گے۔ اس ماحول میں ہمارے ملک کی آدھی آبادی غیر پیداواری کاموں یعنی محض گھر کی چوکیداری اور مہمان نوازی تک محدود ہو جائے گی۔ وہ ملک کی تعمیر و ترقی اورمعاشرتی ارتقا میں حصہ دار نہیں بن سکیں گی۔ اس لیے ہمیں عورتوں کے تحفظ اور وقار کی خاطر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایسے قوانین بنانے ہوں گے کہ لوگ کسی عورت کو گھور کردیکھنے سے پہلے سو بار سوچیں۔ ریاست اور اس کے اداروں کو عورتوں کے پیچھے کھڑا ہونا ہو گا پھر جا کر پاکستان اپنے قدموں پر کھڑا ہو گا۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments