درویشوں کا ڈیرا پر تبصرہ


خط لکھنے کی روایت اگرچہ بہت قدیم ہے لیکن ا س کو اردو ادب میں شامل کرنے کی اہمیت مرزا غالب کے خطوط سے شروع ہوئی ہے۔ میں نے ثانوی اسکول میں غالب کے ادبی خطوط پڑھے تھے۔ اس کے بعد کچھ اور ادیبوں کے بھی اکا دکا خطوط پڑھنے میں آئے۔ چند سال پہلے رتن بائی کے انگریزی میں لکھے ہوئے خطوط پڑھے جو انہوں نے محمد علی جناح کو پیرس سے لکھے تھے جہاں وہ اپنی عمر کے آخری ایام میں سرطان کے مرض کا علاج کروا رہی تھیں۔ لیکن جن خطوط کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے وہ سب یک طرفہ تھے۔ ”درویشوں کا ڈیرا“ اس لحاظ سے منفرد کتاب ہے کہ اس میں دو ادیبوں کے مکالمے ہیں اور یہ سلسلہ اس طرح جاری ہے جیسا کہ ایک پرانے فلمی نغمے کے بول تھے
؎ ایک سوال میں کروں ایک سوال تم کرو۔ ہر سوال کا جواب ہی سوال ہو

یہ دو ادیب ہی نہیں بلکہ اس کتاب میں دو کردار بھی ہیں۔ خالد سہیل کا کردار ایک دہریہ درویش کا ہے جو ادیب بھی ہے، ماہرِ نفسیات بھی ہے، انسانوں کا مطالعہ کرتا ہے اور ان کے مسائل حل کرتا ہے۔ رابعہ الرٌباء کا کردار ایک رابعہ کا ہے جو ادیبہ ہے، رابعہ بصریؒ اور یوسفؑ سے بہت متاثر ہے، رات کی تیسری پہر کی خاموشی اور تنہائی میں خدا سے باتیں کرتی ہے، معاشرے کی روایات کی قید میں ہے اور آزادی سے جینے کی خواہش مند ہے۔

یہ کتاب کئی لحاظ سے منفرد ہے۔ یہ مکالمے جو کہ خواب نامے بھی ہیں دانش اور جذبات سے بھر پور تحریریں ہیں۔ دو شخصیتوں کے درمیان واضح تضاد لیکن اس سے بھی زیادہ دوستی کے جذبات ہیں۔ ایک مغرب میں رہنے والا مرد اور دوسری ایک مشرق میں رہنے والی عورت، ایک دہریہ درویش اور دوسری رات کی خلوت میں خدا سے راز ونیاز کی باتیں کرنے والی عورت، ایک ادیب جس کے تمام خوابوں کی تعبیر اس کی خواہشات کے مطابق ہوئی اوراپنی مرضی کے مطابق اڑتا پھرتا ہے اور دوسرا ادیب روایتوں میں جکڑی ہوئی عورت ہےجس نے خود کو قسمت کے حوالے کر دیا، ایک ادیب جو ذہنی گرین زون mental green zone میں سکون کے ساتھ رہتا ہے اور وہ ایک ادیبہ جس کے دل میں مزید درد کی جگہ نہیں، ایک ادیب جو ہر شے کو عقل اور سائنس کی عینک سے دیکھتا ہے اور دوسری ایک ادیبہ جو جذبات کو خود پر غالب آنے دیتی ہے، ایک ادیب جو شعور میں رہتے ہوئے ہی خطوط لکھتا ہے اور درد بھی شعور کے دائرہ کے اندر رہ کر ہی بانٹتا ہے اور ایک وہ ادیبہ جو ایک ہی وقت میں شعور اور لا شعور کی دنیا میں رہتی ہے۔ درویش دماغ سے لکھتا ہے جبکہ رابعہ دل سے لکھتی ہے۔ لیکن ان تضادات کے باوجود دونوں کی مظبوط قلمی دوستی ہو گئی ہے اور دونوں ایک دوسرے کا خوب احترام کرتے ہیں۔ درویش کے الفاظ میں
” درویش رابعہ سے کبھی نہیں ملا لیکن پھر بھی اس سے ایک ادبی تعلق محسوس کرتا ہے۔ دوستی کی ایک تعریف یہ ہے کہ اس میں فریقین ایک دوسرے کی بہترین صفات کو اجاگر کرتے ہیں۔ “

ان خواب ناموں کی ایک اور خوبصورتی ان کی فکر اور جذبات کی شدت میں ہے۔ ان دونوں ادیبوں نے مل کر ساٹھ دنوں میں پچاس طویل خطوط لکھے اور جیسے جیسے یہ خواب نامے شائع ہوتے رہے انہوں نے قارئین کے تبصروں کا بر وقت جواب بھی دیا۔ یہ بلا شبہ لکھنے کی ایک marathon میراتھون دوڑ تھی۔ اسی لئے ان خواب ناموں میں کوئی سقوط یا جمود نہیں پایا جاتا ہے اور خیالات کے اظہار میں بہت ربط ہے۔ لگتا ہے کہ ایک زنجیر کی مانند لڑیؤں کی طرح یہ خطوط ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

درویش اور رابعہ دونوں ساٹھ دن اکٹھے برق رفتاری سے ایک فکری اور جذباتی سفر کرتے ہیں اور اپنی نیندیں اورآرام قربان کرکے طویل خواب نامے لکھتے ہیں۔ اس دورانِ سفر میں زندگی کے ہر عنوان پر گفتگو کرتے ہیں اور بر جستہ اشعار کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ درویش چونکہ ایک شاعر بھی ہے تو کئی جگہ حسب ضروت اپنے اشعار کو لکھ کر مضمون کو حسن سے نوازتا ہے۔ مثلاً

؎ اس درجہ روایات کی دیواریں اٹھائیں۔ نسلوں سے کسی شخص نے باہر نہیں دیکھا
؎ وصل کی لذتوں کا مزا چھوڑ کر۔ آؤ کچھ دیر کو آج باتیں کریں
؎ عجب سکون ہے میں جس فضا میں رہتا ہوں۔ میں اپنی ذات کے غارِ حرا میں رہتا ہوں
؎ وہ دریا بن کے بہتا تھا تو کتنا شور کرتا تھا۔ سمندر میں وہ جب سے آ ملا خاموش رہتا ہے

”درویشوں کا ڈیرا“ اس لئے بھی ایک منفرد پروجیکٹ ہے کیونکہ ٹیلیفون کے دام سستے ہونے کے بعد پوری دنیا میں خط لکھنے کی عادت اور ضرورت تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے۔ پھر ای میل کا سلسلہ شروع ہوا تو ای میل کی فوری ترسیل کی وجہ سے دو چار سطروں سے کام بن جاتا ہے۔ اس کے بعد فون کے ذریعے پیغام بھیجنے کا دور آ گیا۔ ایک آدھ سطر میں acronym استعمال کر کے پیغام مکمل ہونے لگا ہے۔ جملے میں فعل اور فاعل کا ہونا بھی ضروری نہیں رہا۔ اس طرح کے پیغامات نے گرامر کی دھجیاں ادھیڑ دیں اور صرف مفہوم پر زور دینا ضروری سمجھا گیا۔ ان حالات میں یہ کتاب اس فن کو جگانے کی ایک اہم کاوش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد کچھ اور لوگ بھی خطوط پر مبنی فن پارے لکھیں گے۔

خطوط نویسی کا فن دوسرے نثری فنون کے مقابلے میں زیادہ لچک فراہم کرتا ہے۔ خط نویس کو کسی ایک عنوان سے جڑ ے رہنےکی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ درویش اور رابعہ نے اس لچک سے پورا فائدہ اٹھایا ہے اور ایک کے بعد ایک عنوانات پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ یہ عنوانات انہوں نے اپنے خواب نامے لکھنے سے پہلے منتخب نہیںکیے بلکہ تبادلۂ خیالات کے فطری بہاؤ کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں یہی اس کتاب کی خوبصورتی ہے۔ ان خواب ناموں میں آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی، عقل و دانش کی باتیں اور جذبات کی شدت کی عکّاسی بھی۔ مذہب، سائینس، نفسیات، ادب، عشق و محبت، شادی، حسن، تصوف، روحانیت، معاشرہ اور اس سے جڑی روایات گو کہ زندگی کے تعلق سے ہر گوشہ زیرِ بحث آتا ہے اور دونوں ادیبوں نے دل کھول کر اپنے اپنے خیالات، مشاہدات اور تجربات کو بیان کیا ہے۔

درویش ان خطوط میں علم اور تجربات کو بیان کرتا ہے۔ وہ ایک فنکار بھی ہے ماہر نفسیات بھی اور خدمت خلق بھی کرتا ہے۔ اس لئے اس نے تصوف، جسمانی لذّت، تخلیق اور جنون جیسے نازک عنوانات پر علم و فہم کی روشنی میں اپنے نظریات کو بیان کیا اور ان کو سائنس کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی۔

درویش نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر انسانوں اور زندگی کو کئی اقسام میں بیان کیا ہے۔
مثلاً شاعروں اور فنکاروں کی چار اقسام (30 واں خواب نامہ)، زندگی گزارنے کے تین زون zones اور دو فریقوں کے مابین جھگڑا ختم کرنے کے تین طریقے (40 واں خواب نامہ)، دانائی کے راز پانے کے تین راستے (چوتھا خواب نامہ)، مرد ادیب کے لیے تین آزمائشیں (28واں خواب نامہ)۔

ایک موقع پر درویش نے تخلیق کار کے درد کو اس طرح بیان کیا ہے۔
”تخلیق کار ہونا کس قدر جان لیوا عمل ہے کہ وہ خود تو عمر بھر حالت نزع میں رہتا ہی ہے مگر اس کے ساتھ والے بھی اس درد سے گزرتے ہیں۔ “

درویش اور رابعہ ان مکالموں کے ذریعے سے پیدا ہونے والی قلمی دوستی سے بہت خوش نظر آتے ہیں۔ درویش لکھتا ہے
”درویش کا خیال ہے کہ وہ مرد اور عورتیں خوش قسمت ہیں جن کی آپس میں دوستی ہو جاتی ہے۔ وہ دوستی کی محبت، شادی اور جنسی رشتوں سے زیادہ قدر کرتا ہے کیونکہ وہ دوستی کی معصومیت‘وقار اور بے ساختگی کو مجروح کر سکتے ہیں۔ “

رابعہ کی شخصیت پراسرار ہے۔ وہ رات کی آ خری پہر میں تصوف کی باتیں کرتی ہے۔ جذبات کے بیان پر کوئی بند نہیں باندھتی۔ رابعہ جو ذہنی طور پہ آزاد اور بالغ ہے روائیتی معاشرے میں خود کو جکڑا ہوا محسوس کرتی ہے۔ ایک روائیتی معاشرے میں تخلیق کار عورت پر جو کچھ گزرتی ہے اس کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ جیسے
”اب وہ(رابعہ) اپنے خمیر کی تلاش بھی کھو چکی ہے کہ یہ بھی اس کے بس کی بات نہیں رہی۔ “
”وہ (رابعہ) خاک نہیں ہے جس کو ہوا اڑا لے جائے۔ یہ وہ خاک ہےجو خاک میں خاک ہونا چاہتی ہے۔ “
”رابعہ کے پاس وہ سب کچھ ہے، جس کی بہت سی لڑکیاں خواہش کر سکتی ہیں۔ رابعہ کے پاس بس وہ نہیں ہے جس کی وہ خود خواہش کرتی ہے۔ “
”رابعہ درد کے پل صراط سے گزر کر جس زندگی میں قدم رکھ چکی ہے، وہاں راز و بھید کی اک عجب دنیا ہے۔ جو کبھی درویشوں، فقیروں، صوفیوں سے مضطرب خود ہوتی ہے تو کبھی مستی من میں لے جاتی ہے۔ “
”رابعہ نے سب سے بڑی زبان بولنا شروع کر دی۔ خاموشی۔ “

رابعہ کو مشرقی مرد سے بہت گلہ ہے اور یہ سچ ہے کہ مشرقی معاشرے کا مرد اپنی مردانگی کے نشے میں مرد زیادہ اور انسان کم ہوتا ہے اور عورت کو ایک جنسی گڑیا sex doll سمجھتا ہے۔ مغرب میں مرد کی مردانگی کا غرور ٹوٹ چکا ہے اس لئے عام مردوں میں انسانیت کا پہلو نمایاں ہے۔ جہاں تک مشرق میں عورت کو جنسی گڑیا سمجھنے کا تعلق ہے میری رائے میں وہ مغرب میں اب بھی کچھ حد تک موجود ہے۔ اور اس کی بڑی وجہ مارکیٹنگ کمپنیاں او ر celebrity سیلیبریٹی ثقافت ہے۔ کار سے لے کر شیوننگ کریم تک عورت کے جسم کا سہارا لے کر بیچی جاتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ میڈیانے عورت کی ایک ایسی امیج قائم کر دی ہے کہ عورتوں کی اکثریت خود کو اسی امیج میں فٹ کرنے میں لگی رہتی ہے۔ مغرب میں عورت غلط اور صحیح دونوں روایات سے آزاد ہو گئی ہے لیکن وہ میڈیا کی امیج کی غلام بن گئی ہے۔ پھر بھی یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ مغرب میں مرد اور عورت کی دوستی بغیر کسی جنسی پہلو کے ایک عام بات ہے اور اس کی وجہ اکثر دونوں کا ایک ہی جنون passion ہوتا ہے۔

رابعہ ہر تضاد میں حسن کا پہلو ڈھونڈ نکالنے کی مہارت رکھتی ہے اور حسن میں تضاد کا پہلو بھی اس کی نظر میں ہے۔ مثلاً
”حسن دنیا کی بہت بڑی حقیقت ہے۔ اور اتنی ہی بے معنی بھی۔ “

”یہ حساس ہونا بھی کتنا حسین مرض ہے“

رابعہ صرف انسانوں کے لئے ہی نہیں حساس دل رکھتی ہے بلکہ ماحولیات سے بھی اس کو لگاؤ ہے۔ اس لئے اس نے کئی مرتبہ ایک نہر کا ذکر کیا اور سڑکیں کشادہ کرنے کے لئے درختوں کے کاٹنے پر افسوس کا اظہار کیا۔

اس کتاب کا اس طرح وجود میں آنا ایک کرشمے سے کم نہیں۔ ایک دریا ہے جو شور مچاتا ہوا تیزی سے بہتا چلا جاتا ہے اور پچاسویں خط کے بعد سمندر میں گر کر خاموش ہو جاتا ہے۔ لیکن قاری کے ذہن میں وہ شور ہمیشہ کے لئے نقش کر گیا ہے۔ یہ شور ایک کھوکھلا شور نہیں بلکہ یہ ذہن کے کئی بند دریچے کھول گیاہے، علم اور ادب کی پیاس اور بڑھا گیا ہے۔ بقول درویش کے ”یہ کتاب ایک قوس قزح ہے۔

پہلا رنگ ایک مکالمے کا ہے
دوسرا رنگ آپ بیتی کا ہے
تیسرا رنگ جگ بیتی کا ہے
چوتھا رنگ ادب کا ہے
پانچواں رنگ روحانیات کا ہے
چھٹا رنگ نفسیات کا ہے
ساتواں رنگ دوستی کا ہے“

”درویشوں کا ڈیرا“ کتاب بار بار انسانی سوچ کو جھنجھوڑتی ہے، زندگی میں ارتعاش پیدا کرتی ہے، ذہن کو علم پارے مہیا کر کے علم کی پیاس میں اضافہ کرتی ہے۔ جب میں نے اس کتاب کا اختتامیہ پڑھا تو مجھ پر ایک اداسی کی لہر چھا گئی۔ میں بھی تو ان دو ادیبوں کے ساتھ سفر کر رہا تھا! سفر ختم ہوا تو میں ان سے جدا ہو گیا۔ لیکن میں نے ان دونوں سے اس مختصر عرصے میں زندگی کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ اگر درویش دہریہ نہ ہوتاتو میں یہ ضرور کہتا کہ یہ مکالمے دور حاضر کی ایک رابعہ بصری اور ایک حسن بصری کے درمیان ہیں۔
نوٹ: میں اس مضمون کی اصلاح کے لئے مسلم حسنی (ٹورونٹو) کا شکر گزار ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).