مسائل سے آزادی چاہیں


24 اکتوبر 1947کا دن آزاد کشمیر کا یوم تاسیس ہے۔ آج سے دو دن کے بعد کشمیری عوام یوم آزادی بھر پور جووش وجذبے سے منائے گئی۔ دیس کے ہر کونے مرد و خواتین ایک نئے جذبے سے اس دن کی خوشی منایئں گئے۔ وطن سے حب الوطنی کا اظہار کرنے کے لیے ہر گھر پر پاکستان اور آزادکشمیرکے پرچم لہرائے جایئں گئے۔ سرسبز جھنڈیاں، غباروں اور رنگ برنگی قہمقوں سے ہر شہر کی گلی ایک خوبصورت منظر پیش کررہی ہوں گئی۔ پورے آزادکشمیر میں ایک دن کی سرکاری چھٹی ہوں گئی۔ دارالحکومت مظفرآباد میں وزیراعظم آزاد کشمیر روایتی لباس پہنے ہوئے آزادی کی تقربیات میں شرکت کریں گئے۔ ضلعی سطح پر ڈپٹی کمشنرز صا حبان کی زیر نگرانی ریلیاں نکالی جائیں گئی۔

قوم کو ہر سال کی طرح نئے خوابوں کی تعبیریں سننے کو ملی گئی۔ مقبوضہ کشمیر کی عوام کے نام اظہار یکجہتی کا اظہار کیا جائے گا۔ پاکستان کی سفارتی اور اخلاقی حمایت پر اظہار تشکر ادا کیا جائے گا۔ ہمت، بہادری اور طویل جہدوجہد کے واقعات دہرائے جایئں گئے۔ اس دن کے غروب ہوتے سورج کے ساتھ معمول کی زندگی پھردل ودماغ پر سوار ہونے لگیں گئی۔ دوسرے دن کے اخبارات میں وزیراعظم اور صدر آزادرکشمیر کے حوصلہ افزا بیانا ت پڑھنے کو ملیں گئے۔ صدر اور وزیراعظم کی طرف سے خطا بات میں آنے والے کل کی بہتری کی نوید سنائی جائی گئی۔

آنے والے کل کو آج سے بہتر بنانے کا عز م گذشتہ ستر سالوں کی طرح دہرایا جائے گا آخبارات کے ایڈیٹوریل آنے والے سال کے لیے مثبت لفظوں سے بھرئے ہوں گئے۔ کالم نگاور ں کے تنقیدی اور اصطلاحی تحریریں بھی اخبارات میں دیکھنے میں ملی گئی۔ ریاست، سماجی رہنماؤں اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے مبارک باد کے اشتھارات بھی نظر آیئں گئے۔ ہری بھری جھنڈیا ں، سرسبز غبارے اور پرچم گلیوں میں پڑے نظر آیئں گئے۔ پھر وہی روز مرہ کی زندگی دیکھنے کو ملی گئی۔

بچے سکول جا رہے ہیں، مزدور اپنی مزدوری کے لیے کام پر جا رہا ہے، سرکاری ملازم بھی اپنے دفتر جا رہے ہیں، کاروبار پھر پہلے کی طرح چل پڑتا ہے۔ اور ریا ست کا نظام پھر پہلے کی طرح رینگ پڑتا ہے تو پھر بدلا کیا ہے، شاید کچھ بھی نہیں۔ ہاں صرف ایک چیز میں تبدیلی آئی ہے اور وہ دن، وقت کی تبدیلی۔ کیا ہمیں ہر سال صرف دن اور وقت کی ہی تبدیلی چاہیں، کیا ہمیں اپنا طرز زندگی میں مثبت تبدیلی نہیں چاہیں۔ کیا ہمیں عوام الناس کی بنیادی ضروریا ت میں بہتری نہیں چاہیں۔

ہسپتالوں میں انسانی زندگی کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا۔ تعلیم تو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ریاست کا اولین فرض بھی۔ بیروزگاری اس ریاست میں بھی ایک ناسور بن چکا ہے۔ جو بڑھتا چلا ہی جا رہا ہے۔ بھوک کی وجہ سے روزانہ کئی لوگ بھوکے پیٹ سوتے ہیں یا پیٹ بھر کر کھانہ نہیں کھا سکتے۔ یہ سب کس کی ذمہ داری ہے، کون ہے جو اس کا ذمہ دار ہے، ریاست، نظام حکومت یا حکمران۔ کون سے حکمران جو آج حکومت کر رہے ہیں یا جو پچھلے ستر برسوں سے کر رہے تھے۔ یقینا آج بھی وہی لوگ حکمرانی کر رہے ہیں جو پچھلے ستر برسوں سے کر رہے تھے۔ موروثی سیاست بھی تو ایک چیز کا نام ہے۔ اس کی بھی اپنی اہمیت ہے اور یقینا یہ ہمارے نظام کو چینج نہیں ہونے دے رہی۔

چہرے ہی تو بدلتے ہیں۔ باتوں میں لبھانے کے انداز بدلتے ہیں نئے نئے خوابوں کی تعبیروں کے خوبصورت الفاظ کا ہیر پھیر ہی تو بدلتا ہے۔ تو پھر کون ہے اس کا ذمہ داد، عام عوام الناس ہے اس کی ذمہ دار، ہاں عوام ذمہ دار ہیں اس کے جو ریاست کے عائد کردہ ٹیکس تو دے رہے ہیں۔ آٹے پر ٹیکس، چینی پر ٹیکس، گھی پر ٹیکس، پانی پر ٹیکس، مکان پر ٹیکس، کپڑوں پر ٹیکس، سبزی پر ٹیکس، جوتوں پر ٹیکس، پٹرول پر ٹیکس، ڈیزل پر ٹیکس، بجلی پر ٹیکس، موبایئل فون پر ٹیکس، تعلیم پر ٹیکس، خوشی اور غمی کی تقربیات پر ٹیکس اور زندہ رہنے پر ٹیکس ہی تو دینا پڑتا ہے۔ لیکن یہ سب تو مہذب ریاستوں کی پہچان ہے۔ جو اپنی عوام سے ٹیکس تو لیتے ہیں تو بدلے میں ایک ماں کی طرح پرورش کی ذمہ داری بھی ادا کرتے ہیں۔

جہاں پر عوام کو تعلیم، صحت، بیروزگاری، بھوک وافلاس کے ناموں سے واقفیت بھی نہیں ہوتی۔ ریاست بھی ایک ذمہ دار ماں کی طرح سب کا برابر اور بروقت خیال رکھتی ہے۔ تو کیا ہم ایک مہذب ریاست کے شہری نہیں یا ہمیں ایک ذمہ دار ماں کا ساتھ میسر نہیں۔ یا ہم مہذب ریاستوں کے عوام کی طرح ٹیکس دینے میں کوئی کوتاہی کر رہے ہیں۔ کیا ہم ٹیکس بروقت ادا نہیں کرتے۔ اگر ہم سے یہ سب کچھ لیا جارہا ہے تو ہمیں ہمارے حقوق کیوں نہیں دیے جا رہیے ہیں۔ نہیں حکمران ہیں اس کے ذمہ دار یقینا لیکن حکمران تو اپنا کام پورا کر رہے ہیں۔

اپنے چہتیے کارکن کی نماز جنازہ میں شرکت کر رہے ہیں۔ بروقت نہیں پہنچے تو دعا فاتحہ پڑ کر اپنا حق ادا کر دیتے ہیں۔ اپنایئت کے اس احساس میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمیں حکمرانی صرف اس لیے نہیں ملا اور بہت سے حقوق ہیں جو ان دونوں کاموں سے بہترہیں۔ نماز جنازہ میں شرکت فاتحہ خوانی کی دعا تو واجب ہے گاؤں، محلے کا ایک شخص بھی ادا کر لے تو سب ذمہ داری سے مبرا ہو جاتے ہیں۔ حکمرانوں کا کام تو ریاست کے لیے ہوتا ہے۔

ریاست کے مفاد میں بہتریں پالیساں بنانا ہوتا ہے۔ ایک بہتریں نظام حکومت ترتیب دینا ہوتا ہے، صحت، تعلیم کو آسا ن تر بنانا اوربیروزگاری اور غربت کو ختم کرنا ان کا اولین کام ہوتا ہے۔ لیکن یہاں تو کچھ الٹا ہی ہو رہا ہے۔ مہذب ریاست ہونے کا سرٹیفیکٹ بھی بانٹا جا رہا ہے اور مسائل بھی ختم نہیں کیے جارہے۔ ایک دوسرے کی پالیسوں کا رونا رویا جا رہا ہے۔ ستر سال سے ایک ٹھیکیدار صرف ایک ہی سٹر ک تعمیر کر رہا ہے۔ تعلیمی نظام آج بھی لاڈ میکالے کا دیا ہوا ہے۔ اور ہسپتالوں میں آج بھی لیڈی گا ئنا کالوجسٹ نہیں ہیں۔ بیروزگاری کو ختم کرنے کے لیے صرف باتیں کی جا رہی ہیں۔ آج تک ریاست کو ایک متفقہ آئیں نہیں دے سکیں مسائل اور وسائل کی بحث پر صرف ٹائم کا ضیاع نظر آرہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی بات چھوڑ دو تیرہ ہزار دو سو ستانوے میل، پچاس لاکھ افراد اور دس اضلاع میں کچھ مسائل ہیں ان کو حل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).