‘عماد وسیم فنچ سے بہتر نکلے’


کولٹرنائل زمین کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔ بلا ہوا میں پرواز کر رہا تھا۔ گیند سٹمپس کو منتشر کر چکی تھی۔ سرفراز تالیاں بجا رہے تھے۔

آسٹریلیا میچ ہار چکا تھا۔

کولٹرنائل نے جس مزاحمت کا مظاہرہ کیا، وہ آسٹریلوی ٹاپ آرڈر کے لئے یقیناً ایک لیکچر کا درجہ رکھتی ہے کہ ایسی مبحوس صورت حال میں ایک بیٹسمین کو کیسے اپنے اعصاب مجتمع رکھنا چاہیے۔

کیونکہ اگر اتنی سی بھی مزاحمت کا مظاہرہ نہ ہوتا تو آسٹریلین ٹیم شاید پہلے آٹھ اوورز میں ہی ہوٹل کی بس میں سوار ہو رہی ہوتی۔

اسی بارے میں مزید پڑھیے

’آسٹریلیا پاکستان سے نہیں، محمد عباس سے ہارا‘

تباہ کن بولنگ کی بدولت پاکستان کی 66 رنز سے جیت

آرون فنچ کے لیے پچھلے چند ماہ خاصے خوش بخت ثابت ہوئے ہیں۔ جہاں ایک طرف آسٹریلین شائقین کے لئے کیپ ٹاون سکینڈل مایوسی اور غم و غصے کا ایسا طوفان لایا کہ اپنے دو سٹار پلئیرز کو ایک سال کے لئے کھیل سے ہی نکال باہر کر دیا، وہیں فنچ کے لئے ٹیسٹ ٹیم کا دروازہ کھل گیا۔

فنچ کے لیے یہ ٹیسٹ سیریز بھی کچھ بری نہیں رہی۔ جہاں آسٹریلین بیٹنگ یکسر اضطراب میں گھری دکھائی دی، وہاں بھی انہوں نے اچھے خاصے رنز بٹور لیے۔

لیکن ان کا زیادہ بڑا امتحان یہ ٹی ٹونٹی سیریز ہے جہاں بھلے انہیں سٹیو سمتھ اور ڈیوڈ وارنر کی کمی زیادہ محسوس نہ ہو مگر ان کی عدم موجودگی کا بوجھ بھی سب سے زیادہ، بحیثیت کپتان انھی کے کندھوں پہ رہے گا۔

اگر فنچ رنز کریں گے تو آسٹریلیا کے لیے کوئی امید روشن ہو گی وگرنہ صحرا کی سست وکٹوں پر نمبرون ٹیم کی بولنگ اس بیٹنگ لائن کے بخیے ادھیڑ ڈالے گی۔

ٹی ٹونٹی فارمیٹ جب شروع ہوا تھا تب دو ہی ٹیمیں فوراً اس فارمیٹ کے سانچے میں ڈھل گئی تھیں، بھارت اور پاکستان۔

پہلا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی فائنل بھی انھی دونوں کے درمیان ہوا۔ دوسرے ورلڈ کپ کا فاتح پاکستان ٹھہرا۔

مگر اس نشاط کے بعد پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم رو بہ زوال ہو گئی۔ 2010 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان آسٹریلیا کے مائیکل ہسی کے ہاتھوں سیمی فائنل سے باہر ہو گیا اور اس کے بعد کبھی فائنل تک نہیں پہنچ پایا۔

مگر سرفراز احمد نے اپنی قیادت میں جو ٹیم بنائی ہے اور جس طرح سے اسے چلا رہے ہیں، دنیا کی کسی بھی ٹی ٹوئنٹی سائیڈ کے لئے اسے ہرانا نہایت مشکل ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ رینکنگ کی پہلی سیڑھی پہ پاکستان کی گرفت مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔

مگر اس کے باوجود جس طرح کی کرکٹ فنچ کی ٹیم نے میچ کے پہلے پندرہ اوورز میں کھیلی، ان کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ پاکستان کو ہرا دیتے۔ شعیب ملک کی عدم موجودگی میں جس طرح سے پاکستانی مڈل آرڈر پہ حقیقت آشکار ہوئی، بعید نہیں تھا کہ پاکستان ایک قابل قدر ٹوٹل تشکیل نہ دے پاتا۔

حسن علی کا بلا چلنے کے باوجود ہدف ایسا انگشت بدنداں نہ ہو پایا کہ کسی بیٹنگ لائن کے اعصاب پہ سوار ہو سکے۔

اسی لیے جب عماد وسیم نے اننگز کی پہلی گیند پھینکی تو آرون فنچ نہایت سکون سے پیچھے ہٹے اور سٹمپس کا دفاع کیا۔

عماد وسیم اپنی نوعیت میں عجیب سے خطرناک بولر ہیں۔ ڈی ویلیرز اپنے کیرئیر میں کبھی بھی پہلی گیند پہ آوٹ نہیں ہوئے ماسوائے گذشتہ سال ہونے والی چیمپئینز ٹرافی کے اُس میچ کے، جہاں انہوں نے پہلی ہی گیند پر عماد وسیم کو ‘کَٹ’ کھیلنے کی کوشش کی اور کیرئیر کی پہلی گولڈن ڈک ان کے نام ہوئی۔

تکنیک کے اعتبار سے یہاں فنچ کا فُٹ ورک بالکل درست تھا۔ عماد وسیم عموما دائیں ہاتھ کے بلے بازوں کے لیے گیند اندر کی طرف لاتے ہیں۔ سو فنچ بہت خوبی سے بھانپ کر پیچھے ہٹے۔

مگر چند ہی ثانیوں بعد منظر یکسر پلٹ گیا۔ فنچ کا اعتماد ان کی اپنی خود اعتمادی کے ہاتھوں مجروح ہو گیا۔ عماد وسیم نہایت چالاکی سے انہیں سٹمپس کے آگے لائے اور فنچ کی ساری کیلکولیشن گڑبڑا گئی۔

عماد وسیم کے لئے یہ بہت بڑی کامیابی تھی۔ اور فنچ سر جھکائے صرف اپنی ناکامی ہی نہیں، اپنی ٹیم کی ہار بھی ساتھ لیے پویلین کو جا رہے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp