’ایک ہفتے میں ایسے 20 افراد کو عدالت میں پیش کریں جن کی جائیدادیں بیرون ملک ہیں‘


سپریم کورٹ

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو لندن، دبئی اور دوسرے ممالک کے بارے میں معلومات چاہیے

سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سربراہ کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ہفتے میں ایسے 20 افراد کو عدالت میں پیش کریں جن کی جائیدادیں اور بینک اکاؤنٹس بیرون ملک ہیں۔

سپریم کورٹ نے یہ حکم عدالت میں پیش کی جانے والی اس رپورٹ کی روشنی میں دیے جو کہ 900 کے قریب ان پاکستانیوں سے متعلق تھی جن کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں اور حکام کے مطابق ان جائیدادوں کی مالیت ایک ہزار ارب روپے سے بھی زائد ہے۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سپریم کورٹ میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اب تک کی تحقیقات میں جو چیزین سامنے آئی ہیں ان کے مطابق 894 افراد میں سے 374 افراد نے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھایا ہے جبکہ150 افراد نے ابھی تک بیرون ملک جائیدادیں ظاہر نہیں کیں۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ 82 پاکستانیوں نے ان کی بیرون ملک میں جائیدادوں کی ملکیت سے انکار کیا ہے۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ 69 افراد سے جب ایف آئی اے کے حکام نے تفتیش کی تو اُنھوں نے بتایا کہ اُنھوں نے ان جائیدادوں کے بارے میں ٹیکس ریٹرنز میں معلومات فراہم کر دی ہیں۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

پاکستان: سرمائے کی واپسی کا سنہرا خواب اور حقائق

ایسی بھی کیا جلدی؟

ٹیکس فری جنت کے رہائشی

’جعلی اکاؤنٹس سے 54 ارب روپے بیرون ملک منتقل ہوئے‘

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پاکستانی کے غیر ملکی بینکوں میں اکاؤنٹس اور بیرون ممالک بنائی گئی جائیدادوں کے بارے میں مقدمے کی سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے استفسار کیا کہ ان افراد کے خلاف کارروائی کس کی ذمہ داری ہے۔

دبئی

894 افراد میں سے 374 افراد نے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھایا ہے جبکہ150 افراد نے ابھی تک بیرون ملک جائیدادیں ظاہر نہیں کیں

بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ موجود ہ حکومت نے دو ماہ کے لیے ایمنسٹی سکیم کا اعلان کر رکھا ہے جس کی وجہ سے ان افراد کے خلاف اس وقت تک کارروائی نہیں کی جا سکتی جب تک ایمنسٹی سکیم کے خاتمے کا اعلان نہیں کردیا جاتا۔

بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کس چیز کا انتظار کر رہی ہے جبکہ اس معاملے میں افراد کی نشاندہی بھی کر کے دے دی ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں اگر قانون میں کوئی سقم موجود ہے تو اس کو دور کرنے کے لیے قانون میں ترمیم کریں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم 10 نمایاں افراد کو سپریم کورٹ میں لے کر آئیں جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ قانون کے مطابق ان افراد کو گرفتار نہیں کر سکتے۔

اُنھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت پاکستان نے بیرون ممالک سے اثاثے وطن واپس لانے کے لیے ایک یونٹ قائم کر دیا ہے۔

ڈالر

69 افراد نے بتایا کہ اُنھوں نے ان جائیداوں کے بارے میں ٹیکس ریٹرنز میں معلومات فراہم کر دی ہیں

عدالت کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ کی روشنی میں جتنی مالیت کی جائیدادیں ان پاکستانیوں کی بیرون ملک ہیں ان سے تو پاکستان میں ایک نیا ڈیم تعمیر کیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی کو حکم دیا کہ کم از کم ایسے 20 لوگ عدالت میں پیش کریں جن سے عدالت یہ پوچھے کہ یہ جائیدادیں کس طرح بنائیں۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

جعلی اکاؤنٹس: پیسہ جو آپ کے اکاؤنٹ میں ہے مگر آپ کا نہیں

’مزید 33 اکاؤنٹس سے رقم بیرونِ ممالک منتقل کی گئی‘

بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت کو لندن، دبئی اور دوسرے ممالک کے بارے میں معلومات چاہیے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سٹیٹ بینک کے گورنر طارق باجوہ سے استفسار کیا کہ کیا عدالت قانون کے مطابق کسی بیرون ملک میں کسی شخص کے بینک اکاؤنٹس کی معلومات حاصل کر سکتی ہے جس پر اُنھوں نے کہا کہ وہ برانچیں پاکستان کے قانون کے دائرہ دائرہ کار میں نہیں آتیں۔

عدالت نے اس مقدمے کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کر دی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp