ڈھکن بنو ڈھکن


زندگی کا فلسفہ ایک جار میں چھپا ہے۔ اس جار میں آپ پنگ پانگ بالز ڈالیں، کچھ بالز ڈالنے کے بعد آپ کو لگے گا کہ جار بھر گیا، مگر غور کریں تو اس جار میں اب بھی چھوٹی کنکریاں ڈالنے کی گنجائش ہوگی۔ پھر آپ کو لگے گا کہ جار بھر چکا لیکن اب بھی اس میں ریت اور پانی ڈالا جا سکتا ہے۔ اب اگر غور کریں تو یہ سب چیزیں ایک ترتیب سے چلتی ہیں اب اگر ہم جار میں پہلے ریت ڈال دیتے تو شاید اس جار میں اتنی چیزیں نا سما سکتی۔ جار انسان کی روح ہے اور بالز، کنکریاں، ریت اور پانی انسان کی خوہشات۔ خوہشات کبھی ختم نہیں ہوتی بس روح کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے، مہارت کی بات یہ ہے کہ آپ روح کے اس پیمانے میں کتنی خواہشات کو حقیقت بنا کر سمو سکتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا خوہشات کا پیمانہ سب کا برابر ہوتا ہے؟ نہیں بالکل نہیں! خوہشات معاشرے سے جنم لیتی ہیں، جس معاشرے میں آپ جنم لیتے ہیں آپ کی خوہشات بھی اسی معاشرے کے حساب سے ڈھل جاتی ہیں۔ ڈیفنس میں جنم لینے والی خوہشات راولپنڈی کے چور چوک کی ایک گلی میں جنم لینے والی خوہشات سے بالکل مختلف ہوں گی ۔ سگمنڈ فرائیڈ کے مطابق انسان پوری زندگی اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتا ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ جو وجود بچپن میں اس سے چھین لیا گیا تھا وہ وجود کسی ایک خواہش کے پورا ہونے سے اسے واپس مل جائے گا اور وہ اس ایک خواہش کی تلاش میں بہت سی خوہشات کو خود جنم دیتا ہے۔

کچھ لوگوں کے مطابق یہ بالز، کنکر، ریت اور پانی ہماری خواہشات سے زیادہ ہماری ضروریات ہوتی ہیں، جیسے فیملی، رشتےدار، گھر، نوکری وغیرہ۔ جی ہاں بالکل درست! خواہشات مل کر ضروریات بن جاتی ہیں۔ کچھ لوگ ان سب میں اس قدر پھنس جاتے ہیں کہ خود غرض ہو کر خود کو بھی اور دوسروں کو بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں اور ایسے لوگوں کی مثال اس آخری کنکر کی طرح ہے جس کی جار میں کوئی گنجائش نہیں مگر وہ پھر بھی زبردستی گھسنے کی کوشش میں جار کو توڑ دیتے ہیں اور کچھ لوگ میرے دوست فیصل اور اکبر کی طرح ہوتے ہیں جو ڈھکن کا کردار ادا کرتے ہیں زندگی کی ان تمام خواہشات جو پوری ہو چکی ان کے اوپر ڈھکن بن کر رکھوالی کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ان میں سے کچھ خوہشات اور ضروریات کو باہر پھینک کر کچھ نئی خوہشات کو پورا کر کے دوبارہ ڈھکن بن جاتے ہیں، فلسفہ صرف اتنا ہے کہ دوسروں کے لئے ڈھکن بنیں تاکہ آپ کی زندگی کے اس جار کی حفاظت کے لئے بھی کوئی ڈھکن موجود ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).