جنوبی افریقہ: یونی ورسٹی کے طلبہ انسانی پیشاب کی مدد سے اینٹیں تیار کرنے میں کامیاب


جنوبی افریقہ میں یونی ورسٹی کے طلبہ نے انسانی پیشاب کی مدد سے ماحول دوست اینٹیں تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔

انھوں نے مٹی اور بیکٹریا کو پیشاب میں ملا کر ایک ایسا طریقہ ایجاد کیا ہے جس کی مدد سے نارمل درجہ حرارت میں وہ اینٹیں پختہ شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

یونی ورسٹی آف کیپ ٹاؤن (یو سی ٹی) میں طلبہ کی ٹیم کے نگران ڈلون رینڈال نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ طریقہ ویسے ہی ہے جیسے سمندر میں سیپی تیار ہوتی ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

کیا اپنا پیشاب پینا صحت کے لیے مفید ہے؟

انسانی پیشاب سے دانت اگانے کا تجربہ

عام استمال کی اینٹوں کو بھٹی میں انتہائی گرم درجہ حرارت پر رکھنا ہوتا ہے جو کہ مضر صحت اور مضر ماحول گیس کاربن ڈائی آکسیائڈ کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔

یو سی ٹی کے طلبہ نے بتایا کہ وہ مردوں کے باتھ روم سے پیشاب جمع کر رہے تھے۔ پہلے فرٹیلائزر تیار کرنے کے بعد بچے ہوئے پیشاب کو اس مخصوص طریقے کار سے گزارا جاتا ہے تاکہ وہ اینٹیں تیار کرنے میں استعمال ہو سکے۔

اس سے بیکٹریا ایسا کیمیائی عمل پیدا کرتا ہے جو پیشاب میں موجود یوریا کو کیلشیم کاربونیٹ میں تبدیل کرتا ہے جو موجود مٹی کو پتھر کی مانند سخت بناتا ہے۔

ایک اینٹ کو بنانے کے لیے 25 سے 30 لیٹر پیشاب کی ضرورت ہوتی ہے جو کے سننے میں تو شاید کافی زیادہ لگے لیکن اس میں سے زیادہ تر مقدار ایک کلو فرٹیلائزر تیار کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔

ڈاکٹر رینڈال نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘جب ہم نے گذشتہ سال اس عمل کا آغاز کیا تھا تو ہم نے عام چونے کے پتھر کی مضبوطی کے 40 فیصد برابری کی اینٹ تیار کر لی تھی۔ لیکن چند ہی مہینوں بعد ہم نے اس کو دگنا کر لیا جس کے تحت بیکٹریا اینٹ کو عام درجہ حرارت پر خود سے مضبوط بناتا ہے اور اس کے لیے کسی بھٹی کی ضرورت نہیں پڑتی۔’

یونی ورسٹی کے مطابق اینٹ بنانے کے لیے عام بھٹی کا درجہ حرارت 1400 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔

البتہ ڈاکٹر رینڈال نے تسلیم کیا کہ پیشاب کے ذریعے اینٹ بنانے کا عمل کافی بدبودار ہوتا ہے۔

‘اگر آپ کا کوئی پالتو جانور ہو اور وہ پیشاب کرے تو اس کی بہت تیز بو ہوتی ہے جو کہ اصل میں امونیا گیس کے اخراج کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اینٹ بنانے کے عمل میں امونیا کو استعمال کیا جاتا ہے جس کی مدد سے نائٹروجن گیس سے بھرپور فرٹیلائزر تیار ہوتا ہے۔’

انھوں نے مزید بتایا کہ اس عمل کے تحت 48 گھنٹوں میں اینٹوں سے امونیا کی بو ختم ہو جاتی ہے اور یہ مضر صحت بھی نہیں ہوتی۔

‘اس عمل کے پہلے مرحلے میں ہم جو طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ تمام بیکٹریا کو ختم کر دیتا ہے۔’

یو سی ٹی کے مطابق امریکہ میں یوریا کی مدد سے اینٹیں تیار کرنے کا کام شروع ہوا تھا لیکن اس میں بہت توانائی کی ضرورت تھی۔

ڈاکٹر رینڈال اور ان کے طلبہ سوزان لیمبرٹ اور وکھیتا موکھاری نے پہلی بار اصلی انسانی پیشاب استعمال کیا جس سے انسانی فضلے کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32551 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp