کیا جمہوریت ادھیڑ عمری کے بحران سے گزر رہی ہے؟
جمہوریت ختم نہیں ہورہی ہے تاہم یہ ادھیڑ عمری کے بحران سے گزر رہی ہے جس میں یہ نہیں معلوم کہ آئیندہ کیا ہونے والا ہے۔
یہ خیالات کیمبرج یونیورسٹی کے علومِ سیاسیات کے شعبہ کے سربراہ پروفیسر ڈیوڈ رنسی من کے ہیں جو ٹرمپ، سوشل میڈیا اور بڑھتی ہوئی اقتصادی ناہمواری کے دور کی مغربی جمہوریت کے حالت کی وضاحت پیش کرتے ہیں۔
رواں ہفتے ’کیمبرج فیسٹول آف آئیڈیاز‘ یعنی کیمبرج میں نظریات کا میلہ، میں سائنس، فنونِ لطیفہ اور سماجی اور عمرانی علوم کے کئی بڑے بڑے مفکرین عام لوگوں سے تبادلہِ خیال کے لیے مختلف محفلوں میں سینکڑوں لوگوں سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔
اپنی حال میں شائع ہونے والی کتاب ’ہاؤ ڈیموکریسی اینڈز‘ یعنی جمہورت کیسے ختم ہوتی ہے، سے تحریک لیتے ہوئے پروفیسر رنسی من میں نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ “کیا ہمارے نظام جمہوریت کے ٹوٹنے کے عمل کا آغاز ہوگیا ہے؟”
سیاسی زلزلے
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کی سیاسی غیر یقینی اورمایوسی “سن 2008 کے مالیاتی بحران کے اثرات ہیں۔ یہ اس وقت کے سیاسی موقع کی بڑی ناکامی سے پیدا ہونے والے حالات سے پرتیں کھلنے کا ایک طویل عمل ہے۔”
اقتصادی مسائل کے ایک طویل سلسلے کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ کا امریکہ میں انتخاب اور برطانیہ میں بریگزِٹ کی ریفرنڈم میں کامیابی جیسے سیاسی زلزلے بھی آئے ہیں۔
پروفیسر رنسی من کہتے ہیں “یہ ایسی باتیں ہیں جو پانچ برس پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھیں۔ لہٰذا ایک ایسی سوچ ابھر رہی ہے کہ کچھ تو ایسا ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ان باتوں کی کسی نے بھی پیشین گوئی نہیں کی تھی۔”
“کیا اب اختتام ہونے والا ہے؟ جی نہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ لوگ کیوں پوچھ رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔”
ان کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کی انتخابی کامیابی کو جمہوریت کے روایتی طرزِ فکر کا اختتام نہیں سمجھنا چاہئیے۔
گھن چکر میں
پروفیسر رنسی من اس خیال کے بالکل برعکس سوچتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت اپنی ادھیڑ عمری کو پہنچ چکی ہے، جس میں ووٹرز یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ایک گھن چکر میں پھنسے ہوئے ہیں اس لیے وہ کسی بھی قسم کی تبدیلی کو ترجیح دے رہے ہیں، لیکن کوئی بنیادی طور پر مختلف چیز نہیں چاہتے ہیں۔
وہ صدر ٹرمپ کو ادھیڑ عمری کے بحران میں خریدی گئی ایک شوخ موٹرسائیکل سے ملاتے ہیں۔
“ہم تبدیل ہوئے بغیر ایک تبدیلی چاہتے ہیں۔”
وہ پیشین گوئی کرتے ہیں کہ بڑے ہی “عجیب و غریب” قسم کے لوگ انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے نظر آئیں گے۔
لیکن یہ اس لیے کہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ سیاسی ادارے اتنے مضبوط ہیں کہ ایسے عجیب و غریب قسم کے لوگوں کے منتخب ہونے سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا۔
“ہم نے ٹرمپ کو اس لیے ووٹ دیا کیونکہ ہم سوچتے ہیں کہ جمہوریت ایک پائیدار نظام ہے اور ہم جو بھی کرلیں یہ قائم رہے گا۔”
سنہ 1930 کے بحران جیسا نہیں
پروفیسر رنسیمن مجودہ سیاسی کشیدگی کے سنہ 1930 کی دہائی کے حالات سے موازنے کو مسترد کرتے ہیں۔ سنہ 1930 کی دہائی کے بعد قوم پرستی اور آمریتوں کے عروج کی وجہ سے جمہوریتوں پر بہت دباؤ بڑھ گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ “ہم (موازنے کی) بازگشت کی وجہ سے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ ہم یہ نہیں جانتے ہیں کہ سنہ 1930 کی دہائی میں زندگی کیسی تھی۔”
پروفیسر کہتے ہیں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب بے اتنہا غربت تھی، پرتشدد انتہا پسندی اور بندوقیں تھامے لوگ کی عسکریت پسندی والی ایک سیاست تھی۔
یورپ اس وقت پہلی جنگِ عظیم کی ہولناکیوں کے بعد ایک “پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس ڈس آرڈر” (ایک ہولناک حادثے کے بعد کا نفسیاتی دباؤ) کی کیفیت سے گزر رہا تھا۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس طرح کے حالات کا دباؤ اب جدید دور کی سیاسی شکستگی میں دکھائی نہیں دیتا ہے۔
“اب غصے میں بوڑھے لوگ ہیں اور اس کی وجہ قرصے اور نیٹ فلیکس ہیں۔”
طاقت کی سرحدیں
پروفیسر رنسیمن کا کہنا ہے کہ اب جمہوریت کو ٹھوس اور غیر متوقع خطرہ سوشل میڈیا یا ٹیکنالوجی کی بڑی بڑی کمپنیوں سے ہو سکتا ہے۔
“یہ ایک ایسی طاقت ہے جس کی وسعت، رفتار، اور پیچیدگی کا فی الحال کسی کو ادراک ہی نہیں ہے۔”
جمہوریت پراپیگینڈا اور جعلی خبروں سے نبردآزما ہوتی چلی آئی ہے۔
“لیکن ہم بیس یا تیس برسوں میں یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اس نظام میں جہاں طاقت ہے اس پر ہمارا کنٹرول ختم ہوگیا ہے۔”
“بڑی بڑی ٹیک کمپنیوں کے پاس ایسی طاقت ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔”
اگرچہ ماضی میں حد سے زیادہ طاقتور بن جانے والی صنعتوں کو توڑا جاسکتا تھا، لیکن آج کی بڑی بڑی ٹیک کمپنیاں سیاسی عمل سمیت ہماری زندگی کے ہر پہلو سے پیجیدہ طور پر ایک دوسرے سے باہم بُنی ہوئی ہیں۔
“اگر کوئی ملک گوگل کو کنٹرول کرنا چاہے تو اسے پہلے یہ سوچنا پڑے گا کہ گوگل کو کنٹرول کرنا کس طرح ہے۔”
اور جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو اس میں سیاست، تفریح اور ریلیٹی ٹیلیویژن کے درمیان حدیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔
جمود کا شکار آسودہ معاشرے
عالمی جنگ کے بعد کے حالات میں آزاد خیال مغربی جمہوریتیوں میں آسودہ معاشرے پیدا ہوئے۔ اور پروفیسر رنسیمن کہتے ہیں کہ اب یہ معلوم نہیں ہے کہ اگر لوگ غریب ہوتے جا رہے تو جمہوریت میں کس قسم کی تبدیلی آئے گی۔
جب لوگ کئی برس سے اپنی تھمی ہوئی آمدن اور تنخواہوں میں پھنسے ہوئے ہیں تو وہ سیاسی طور پر کمزور بھی ہورہے ہیں۔
“تاریخی طور پر ایسی کئی مثالیں نظر آتی ہیں کہ اقتصادی ترقی نہ ہونے کے باوجود کئی جمہوری نظام برقرار رہنے میں کامیاب رہے۔ اگر لوگ خوشحال محسوس نہیں کرتے ہیں تو وہ عمومی سوچ کے دھارے سے الگ سیاست دانوں کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔”
تاہم اقتصادی بحران کی وجہ سے تو غریب ممالک میں پورا سیاسی نظام گرسکتا ہے۔ لیکن نسبتاً مستحکم ممالک میں انقلابات کے بجائے ایک مایوسی پھیلتی ہے۔
پروفیسر رنسیمن کا کہنا ہے کہ جمود کا شکار آسودہ معاشرے ایک غیر فعال جمہوریت کے ساتھ بھی گزارہ کرسکتے ہیں۔
” اور ہم شاید اس کے ابتدائی دور میں ہیں۔”
ان کا استدلال ہے کہ جمہوریت کی پائیداری نے لوگوں کو اتنا مطمئن کردیا ہے کہ وہ اسے بچانے یہ اس کو اور بہتر کرنے کے بارے سوچ نہیں رہے ہیں۔ یہ بچ سکتی ہے لیکن یہ اندر سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔
“یہ ایک ایسا نظام ہے جو تھک گیا ہے لیکن بڑے بڑے چیلینجز سے نبرد آزما ہونے کی جد و جہد کر رہا ہے، تاہم اس کے رستے میں گر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔”
وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر غور کر سکتے ہیں کہ مقامی سطح پر، قومی سطح پر یا بین الاقوامی سطح پر جمہوری سیاست مزید بہتر طور پر کس طرح کام کرسکتی ہے۔
“لیکن بجائے اس کے کہ مغربی جمہوریتیں اپنے نظام کو بدلیں، یہ اپنے لیڈروں کو بار بار بدل رہی ہیں۔ پروفیسر رنسیمن کہتے ہیں کہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ آؤ “ایک جوکر کے بعد دوسر جوکر آزمائیں۔”
- شیاؤمی: چینی سمارٹ فون کمپنی نے الیکٹرک کار متعارف کروا کر کیسے ٹیسلا اور ایپل دونوں کو ٹکر دی - 29/03/2024
- خسارے میں ڈوبی پاکستان کی قومی ایئرلائن کو ٹھیک کرنے کے بجائے فروخت کیوں کیا جا رہا ہے؟ - 29/03/2024
- غزوہ بدر: دنیا کی فیصلہ کن جنگوں میں شمار ہونے والا معرکہ اسلام کے لیے اتنا اہم کیوں تھا؟ - 29/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).