عریاں تصاویر کے ذریعے سوشل میڈیا پر کردار کشی اور بلیک میلنگ


وہ بہت پریشان تھا، میرے ایک دوست کامران خان کے توسط سے ملنے آیا تھا۔ میں اسے جانتا نہیں تھا، لیکن وہ مشکل میں تھا اس کو مدد کی ضرورت تھی، اس کا دکھ اور درد حقیقی تھا۔ وہ بات بتانے سے ڈر رہا تھا۔ میں نے اسے حوصلہ دیا، اسے یقین دلایا کہ وہ اعتماد کرسکتاہے، کامران خان نے بھی اسے دلاسا دیا۔ لیکن وہ پھر بھی جھجک رہا تھا، وہ شرما رہا تھا۔ اس کے پاس الفاظ نہیں تھے۔ شاید ہم میں کوئی بھی شخص ہوتا تو اسی شرمندگی اور جھجک کا مظاہرہ کرتا۔ وہ قانونی رہنمائی چاہتا تھا مگر جب قانون کی طرف دیکھتا تو اس کو یہ راہ بھی مکمل تاریک نظر آرہی تھی۔ اسے مکمل یقین تھا کہ اس معاملے میں قانون کچھ نہیں کرے گا۔

میں حیرانی سے کامران خان کا منہ دیکھ رہا تھا کہ کامران ہی بات بتا دے تاکہ معلوم ہوسکے کہ مسئلہ کیا ہے، کامران نے یہ سارا چپ کا سلسلہ توڑا، کامران نے کہا کہ بات یہ ہے، بھائی پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر ہے، اس کی بہن میڈیکل کالج کی طالبہ ہے، اس نے کچھ تصاویر لے کر اپنے جی میل اکاؤنٹ میں رکھی تھی جو کسی نے وہاں سے نکال کر فیس بک پر قابل اعتراض حد تک ایڈٹنگ کے بعد نیا اکاؤنٹ بنا کر پوسٹ کر دی ہیں۔ دوست کی بہن کی عزت پورے کالج میں جو گئی سو گئی، مگرجس ذہنی اذیت سے اس کا خاندان گزر رہا ہے اس کو لفظوں میں بیان کرنا اس کے لیے مشکل ہے۔ یہ دوست خود کو بہت بے بس محسوس کر رہا ہے۔ یہ صرف اس شخص کا پتہ لگا کر اس کے خلاف قانونی کارروائی چاہتا ہے۔ لیکن سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کرے؟

ایک طرف معاشرے میں لوگوں کی باتوں کا ڈر تو دوسری طرف بہن کا غم۔ میں اس صورتحال سے اب تک نہیں نکل سکا۔ ۔ میں جب بھی اس طرح کا واقعہ یا خبر دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں کے سامنے وہی مرجھایا پریشان آجاتا ہے۔ کیونکہ یہ میرے ملک میں ناجانے کتنے لوگوں کی کہانی ہے۔ کتنے گھراس کرب سے گزرتے ہیں۔

چند روز قبل سینئر رپورٹر عرفان ملک کی طرف سے دی جانے والی خبر جس میں ایف آئی اے کو جنسی ہراسگی اور بلیک میلنگ اور جعلی اکاؤنٹ بنانے کے حوالے سے اس سال اب تک ایک ہزار سے زائد درخواستیں وصول ہوئی ہیں۔ جن میں زیادہ تر ملوث لوگوں کا سراغ لگا کر اور انہیں سزا دی جا چکی ہے، جب میں نے یہ خبر پڑھی تو میں ایک مرتبہ پھر ڈپریشن میں چلا گیا کہ ادارے کے لیے تو یہ ایک کیس ہے مگر حقیقت میں یہ کتنے ہی کرداروں کے ذہنی اذیت سے گزرنے کا عمل ہے۔

اس طرح کے واقعات میں عموما معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس کی کارستانی ہے لیکن یہ کوئی دوست یا کوئی جاننے والا ہی اس طرح کی حرکت کرتا ہے۔ آپ لوگوں پر اعتماد کرتے ہوئے حال میں بیٹھے مستقبل کے بارے میں سوچ لیں تو شاید اس طرح کے واقعات ہی نہ ہوں۔

اسی طرح کا ایک دوسرا کیس ایک ڈاکٹر کا کیس ہے، جس نے مجھے حقیقت میں ہلا کر رکھ دیا، یہ صاحب لاہور میں انگریزی ٹائپ بڑے سکولوں کی ایک چین کے چئیرمین ہیں اور سابق بیوروکریٹ بھی، اس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور طلاق کے بعد بیوی کے فیس بک اکاؤنٹ اور جی میل اکاؤنٹ کو ہیک کر کے سابقہ بیوی کی نازیبا تصویریں پوسٹ کر دیں، کیا کوئی شخص اس قدر نیچ حرکت کی بھی کرسکتا ہے اور وہ اس عورت کے ساتھ جو سابقہ بیوی ہو اور اس سے دو بچے بھی ہوں؟ اس عورت کی بہادری کو سلام جو عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے، اس نے حوصلہ نہیں ہارا اور جواں دلیری سے ان مضبوط ہاتھوں والوں کا سامنا کیا، جس کی بدولت یہ ملزمان آج جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

ماہر قانون شمائلہ حسین شاہانی کی اس حوالے سے رائے بہت اہم ہے اس کا خیال ہے کہ بہت سے لوگوں کو تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اگر ایسا واقعہ پیش آئے تو کیا کرنا چاہیے۔ اگرچہ اس کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارہ بہت کام کر رہا ہے۔ وہاں اپنی شکایت درج کروانے کے دو طریقے ہیں یا تو آپ آن لائن درخواست دے دیں جس میں ان کا خیال ہے کہ ایک مہینے کا وقت لگ جاتا ہے۔ جو کہ بہت زیادہ وقت ہے۔ یا پھر دفتر جا کر بھی شکایت درج کروائی جاسکتی ہے جس کے ذریعے سے کارروائی کاآغاز جلد ہوجاتاہے۔

لیکن سائبر کرائم سیل تو چند بڑے شہروں میں ہی موجود ہیں۔ اس لیے قریبی شہروں سے ایک شکایت درج کروانے کے لیے بڑے شہر میں آنا اور کارروائی شروع ہونے کے بعد دوبارہ انٹرویو کے لیے بلانے کا عمل کافی مشکل ہوتا ہے۔ جس پر ایف آئی اے کو ون ونڈو حل نکالنا چاہیے تاکہ لوگوں کو بار بار نہ آنا پڑے اور مزید سائبر کرائم سیل کو چھوٹے شہروں میں بھی کھولا جانا چاہیے۔

لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ لوگ اداروں پر اعتماد کیسے کریں؟ لوگ ڈرتے ہیں اگر وہاں گئے تو بدنامی اور ناجانے کن سوالوں کا سامنا ہوگا؟ اس حوالے سے وزیرمملکت شہریار آفریدی سے درخواست ہے کہ وہ اس بات کا بھی نوٹس لیں اور وہاں خواتین تفتیش کاروں کی بھی تعداد بڑھائیں۔ خواتین کی شکایتوں کے لیے صرف خواتین ہی ہوں تاکہ خواتین پراعتماد طریقے سے اپنے مسائل بتائیں اور ان بڑھتی ہوئی وارداتوں کا تدارک ہوسکے۔

اس حوالے سے ایک غیر سرکاری ادارہ جس کی خدمات کو میں یہاں سراہے بغیر نہیں رہ سکتا وہ ڈیجیٹل رائٹ فاؤنڈیشن ہے۔ جس نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے بہت تحقیق کی ہے۔ آن لائن ہراسگی کے معاملے پر مکمل آگاہی پھیلا رہا ہے۔ اس ادارے نے کچھ آنکھیں کھول دینے والے انکشاف کیے ہیں جو کہ ایک عام شخص کے پریشان کن ہیں۔ اس کی دو سالہ رپورٹ جو ابھی شائع ہوئی ہے اس کے مطابق اس دوران انہیں بارہ ہزار تین سو انتالیس شکایتیں موصول ہوئی ہیں، جس میں سے صرف دو سو بتیس شکایتوں پر عمل درآمد ہوتے ہوئے ایف آئی آر درج ہوئی ہیں۔

اس ادارے کو اس سال اب تک چار سو چھہتر کیس صرف لاہور کے موصول ہو چکے ہیں۔ جن میں چالیس فیصد کی عمر اکیس سال سے پچیس سال ہے۔ جبکہ حیران کن طور پر چار فیصد کی عمر اٹھارہ سال سے بھی کم ہے۔ یعنی ہمارے بچے جو جوانی میں ابھی قدم بھی نہیں رکھ پائے وہ ایسی بیوقوفیاں کر رہے ہیں تو والدین کو اس معاملے میں زیادہ سنجیدہ ہو کر سوچنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور کل کو وہ پچھتا رہے ہوں۔

ہمارا نوجوان دوست ایتھیکل ہیکر رافع بلوچ جو اس کام میں اکیلا ہی اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتا ہے اورسائبر سیکورٹی کے معاملے پر آگاہی پھیلانے میں پیش پیش رہتا ہے اس کی نصیحت ہے کہ ہر وہ شخص جو انٹرنیٹ کی دنیا سے جڑا ہوا اس کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ یہ غیر محفوظ جگہ ہے۔ جہاں وہ اپنی ذاتی زندگی کی بہت ساری چیزیں رکھ رہا ہے اور اندھا اعتماد کر رہا ہے اس کو اس بات کا علم ہونا چاہیے، یہاں کچھ محفوظ نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).