مغرب کی نجی زندگی، فحش فلمیں اور پاکستانی طلاقیں


یورپ اور امریکہ کے رسم و رواج اور طرز زندگی کا اسلامی اقدار اور اسلامی طرز حیات کے ساتھ موازنہ بہت مشکل ہے۔ وہاں کے باشند ے تمام تر برائیوں کے باوجود ان اخلاقی اقدار کی پابندی کرتے ہیں جس سے ہمارا ناطہ ٹوٹے سینکڑوں برس گزر چکے ہیں۔ ہماری اچھی اقدار کو غیر ملکیوں نے اپنا لیا ہے جب کہ ان کی بری عادات، جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں کو ہم نہ صرف اپنا چکے ہیں بلکہ ان کی برائیاں ہماری عادات حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ یورب اور امریکہ میں دو محبت کرنے والوں کو آزادی ہے کہ وہ جس وقت اور جس جگہ چاہیں اپنے جذبات کا اظہار کریں اور روکنا تو درکنار کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا تک نہیں۔ عورت اور مرد کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ان کے الگ اصول ہیں۔

مثلاً بھری بس یا ٹرین میں یا کسی پبلک پارک میں جہاں دوسرے افراد کی کمی نہ ہو جو نہی کسی جوڑے کا جی چاہا وہ اظہار محبت کرنا شروع کر دیتا ہے اور کیا مجال ہے کہ کوئی ان کو ڈسٹرب کرنے کا تصور بھی کر سکے۔ لندن کی سڑک کے کنارے سرشام ایک گاڑی کھڑی تھی اور اس گاڑی کے اند ر ایک نوجوان لڑکا اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ جنسی فعل کر رہا تھا۔ دونوں محبت کے ان حسین لمحات میں دنیا جہاں کے غموں سے بے نیاز زندگی کو انجوائے کر رہے تھے کہ وہاں سے گزرنے والی ایک گاڑی میں سوار کسی شخص نے کیمرے کا استعمال کر ڈالا۔

کیمرے کی فلیش کی چکا چوند روشنی نے جو نہی مذکورہ جوڑے کی گاڑی کو اپنے حصار میں لیا‘ لڑکے اور لڑکی نے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ ان کے جسم پر کپڑ ے موجود ہیں یا نہیں، سڑک پر کھڑے ہو کر بنانے والے شخص کو گالیاں دینا شروع کر دیں اور ساتھ ہی انہوں نے اپنے موبائل فون سے پولیس کو اطلاح کر دی کہ فلاں رنگ اور ماڈل کی گاڑی میں سوار نامعلوم شخص نے ان کی نجی زندگی میں مداخلت کی ہے۔

وہ جوڑا کسی اسلامی ملک میں اس فعل کا ارتکاب کر رہا ہوتا تو اسے سو سو کوڑے مارے جاتے اور قرآنی احکامات کے مطابق ایسا کرتے رحم سے کام نہ لیا جاتا۔ لیکن اس معاشرے کے خوبی یا خامی دیکھیں کہ وہاں جرم مرد اور عورت کا نہ سمجھا گیا بلکہ جس نے تصویر بنانے کی کوشش کی اس کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ مقدمہ چلا تو اس شخص نے حلفاً کہا کہ میرے کیمرے میں فلم موجود نہ تھی میں نے تو شرارتاً فلیش گن استعمال کی تھی۔ مگر عدالت نے اسے سزا سنا دی۔

لندن میں ایک سنیما میں فلم چل رہی تھی جو صرف بالغوں کے لئے تھی مگر سنیما ہال میں ایک نابالغ جوڑا بھی بیٹھا ہوا تھا۔ کسی نے پولیس کو اطلاع کی اور سنیما کی انتظامیہ مصیبت میں پڑ گئی اور یہ ایشو کئی روز تک اخبارات میں بحث کا موضوع بنا رہا کہ سنیما انتظامیہ نے ایک نابالغ بچے کو ٹکٹ دے کر ہال میں داخل کیوں ہونے دیا۔

لندن ہی میں ایک لڑکے نے راہ چلتی ہوئی لڑکی کو اشارہ کر کے دریافت کیا کہ کیا وہ اس کے ساتھ کچھ لمحات گزارنا پسند کرے گی۔ لڑکی نے انکار کر دیا۔ اصولاً تو بات یہاں ختم ہو جانی چاہیے تھی لیکن و ہ لڑکا اس سے چھیڑ چھاڑ کرتا آگے بڑھتا رہا۔ لڑکی نے پاس سے گزرنے والی پولیس وین کو روکا اور شکایت کی کہ فلاں لڑکا اسے ہراساں کر رہا ہے۔ اس لڑکے کی گرفتاری عمل میں آئی اور وہ جیل پہنچ گیا۔ غرض یورپ اور امریکہ میں اخلاقی گراوٹ کے باوجود اس بات کی کسی کو اجازت نہیں ہے کہ کسی لڑکی کو اس کی مرضی کے برعکس اپنے بستر تک لے جانے کی کوشش کرے۔

وہاں نائٹ کلب ہیں، وہاں سیکس فری سوسائٹی موجود ہے، وہاں چکلوں کی کمی نہیں اور وہاں طوائف سر راہ چلتے چلتے معاملات طے کر لیتی ہے۔ یورپ اور امریکہ کی زندگی کی ایک جھلک وہاں بننے والی فلموں میں نظر آتی ہے۔ لیکن وہاں بننے والی فلموں پر لکھا ہوتا ہے کہ فلاں فلم ہر قسم کے شائقین کے لئے ریلیز کی جا رہی ہے اور فلاں فلم بالغ افراد کے لئے ہے۔ اگر فلم ڈراؤنی ہے تو ٹائیٹل پر لکھا ہوتا ہے کہ کمزور دل حضرات یہ فلم نہ دیکھیں۔

یورپ اور امریکہ میں تیار اور ریلیز ہونے والی فحش فلموں نے اس وقت ہماری سوسائٹی کو کینسر کی طرح اپنی زد میں لے لیا ہے۔ ان فلموں میں جو مناظر دکھا ئے جاتے ہیں اور جس طرح ایک ایک عورت کے ساتھ کئی کئی مردوں کو جنسی فعل کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اس نے اخلاق کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ نوجوا ن نسل ان فلموں کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوتی جا رہی ہے اور حد تو یہ ہے کئی شریف زادیاں محض اس لئے طلاق لینے پر مجبور ہو جاتی ہیں کہ ان کے شوہر بلیو پرنٹس دیکھ کر انہیں ویسی ہی حرکات کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ملک میں طلاق حاصل کرنے کے لئے خواتین کی طرف سے دائر کیے جانے والے مقدمات میں سے 25 فیصد مقدمات ا س زمرے میں آتے ہیں جب کہ بے شمار شریف عورتیں والدین کی بدنامی کے خوف سے شوہروں کے مظالم اور غیر اخلاقی مظالم کا شکار بنتی ہیں۔

یورپ میں اب جو بلیو پر نٹس تیار ہو رہا ہیں ا ن میں بدکاری کا ارتکاب کرنے والی انگریز ہی نہیں ہوتیں بلکہ مسلمان لڑکیاں بھی یہ گھناؤنی حرکت کرنے اور کروانے والوں کی صف میں شامل ہیں۔ یہ لڑکیاں لندن کے نائٹ کلبوں میں ڈانس کرتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک شریف فیملی سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی نے لندن میں دوران تعلیم اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ایک ہوٹل میں عیاشی کی اور کسی نے اس کی فلم بنا کر دنیا بھر ریلیز کر دی۔

یہ تو ایک مثال تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ طوائفوں کا ایک مخصوص گروپ حسین و جمیل دوشیزاؤں کو ثقافتی طائفے کی شکل میں متحدہ امارت، لندن اور امریکہ لے جاتا ہے اور وہاں ان لڑکیاں سے جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔ وہاں مجرے ہوتے ہیں اور خلیج کے اخبارات کے علاوہ یورپی میڈیا میں اشتہارات شائع کیے جاتے ہیں کہ ”آج فلاں ہوٹل میں حسین و جمیل لڑکیاں کا مجرا دیکھیے“ دنیا بھر میں ثقافی طائفوں کے نام پر پاکستان بدنام ہو رہا ہے لیکن وزارت خارجہ یا کسی اور متعلقہ ادارے نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا کیونکہ طوائفوں کا مافیا اس قدر با اثر ہے کہ کوئی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔

میں نے دوبئی کے ایک موقر جریدے ”گلف نیوز“ میں ساڑھے چار سال رپورٹر کی حیثیت سے کام کیا ہے اور مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ ثقافی وفود کس کس طرح سینئر حکام کو خوش کرتے ہیں۔ ہمارے چاروں طرف گندگی کا ایک سمندر ہے اور زمین سمٹی جا رہی ہے۔ اگر برائی کی اس ولدل پر قابو پایا گیا تو پھر ایک د ن ایسا بھی آ سکتا ہے جب ہر طرف طوائفیں ہوں گی اور جسم فروشی معاشرے میں وہی مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی جو مقام راشی اور بدعنوان شخص کا ہے اور رشوت ظاہر ہے اب معاشرے کا جزو لازم بن کر رہ گئی ہے۔
کتاب ”عورت اور بازار“ سے اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).