محیر العقول مفروضے


اکیسویں صدی کے ڈیجیٹل عہد میں بھی ما فوق الفطرت، مافوق الفہم اور زمینی حقائق سے کئی نوری سال دور مفروضے ہم گھڑتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اپنے مضحکہ خیز مفروضہ جات کو حقائق اولیٰ کا درجہ دیتے ہوئے یہ بھی چاہتے ہیں کہ آنکھوں اور کانوں والے ان پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر دیں۔ اس سے قبل دو کالموں میں ایسے چند مفروضے عرض کیے جا چکے ہیں۔ آج مزید افسانوی مفروضے زیر نظر ہیں۔

مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ ساری دنیا مسلمانوں کے اتحاد سے خوفزدہ ہے اور عالم اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ بہت خوب، سوال مگر اٹھتا ہے کہ دنیا میں جس ’اتحاد‘‘ کا ایک بھی قابل ذکر تعلیمی ادارہ نہیں، جہاں تحقیقی اور علمی کام ہوتا ہو، اس کے خلاف ٹاپ ٹین یونیورسٹیاں رکھنے والے اور جدید علوم کے دیگر اداروں کے جال بچھانے والے کیونکر سازشیں کریں گے؟ جو عالم اسلام ’سازشیوں‘‘ کے اسلحے کا محتاج ہو، اس سے دنیا کیوں خوفزدہ ہو گی؟ سوئی سے لے کر ہوائی سفر تک اور بجلی سے لے کر موبائل فون تک، جن کی پاکیزہ زندگیوں کا ایک لمحہ بھی اغیار کی کسی ایجاد کے بغیر نہیں گزر سکتا، کیا اغیار احمق ہیں کہ اپنے دستِ نگر انہی نیکوکاروں کو کمزور کرنے کے لیے منصوبے بنائیں گے؟

جس ’سیسہ پلائی دیوار‘‘ کی حماقتوں پر اجارہ داری ہے، کیا اس کے خلاف وہ سازشیں کریں گے جن کا دنیا بھر کے وسائل پر اجارہ ہے؟ یاد رہے کہ جس اُمہ کو ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے، آج اس کے ایک حصے میں لوگ بھوک سے خود کشیاں کرتے ہیں اور دوسرے حصے کے شہزادے اور شہزادیاں یورپ کے مہنگے ترین کیسینو میں ایک رات میں بیس بیس لاکھ پونڈز جوئے میں ہار دیتے ہیں۔ کہیں کلمہ گوؤں کے پاؤں میں جوتی نہیں اور کہیں اہل ایمان عیاشی کے لیے سالم جزیرے خرید لیتے ہیں۔ موروثی بادشاہت، گائیڈڈ جمہوریت، عدم مساوات، جدید عصری علوم سے نا آشنائی اور موہوم اخلاقی کردار غرض ہر ’خوبی‘‘ اس سیسہ پلائی دیوار میں موجود ہے جبکہ اس ’دیوار‘‘ کے اُس طرف سب خیریت ہے۔ صرف فرانس کی قومی پیداوار عالم رویا میں زندہ عالم اسلام کی مجموعی سالانہ قومی پیداوار سے زیادہ ہے۔ تو کیا یہ افسانوی مفروضہ نہیں کہ علم اور تحقیق جن کی لغت ہی سے خارج ہیں، وہ جدید سائنس، تعلیم اور ریسرچ پر اربوں ڈالر کھپانے والوں کے لیے خطرہ ہیں؟ کیا زمین سے اربوں نوری سال دور کہکشاؤں کا فاصلہ ماپنے والے، طولِ شب فراق ماپنے والوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کریں گے؟ کیا آزاد ئی رائے کو ساتویں آسمان پر پہنچانے والے اپنے جمال خاشقجیوں کو قتل کرنے والوں سے ڈریںگے؟ ان کے پاس تو ہماری حماقتوں پر ہنسنے کے لیے بھی وقت نہیں۔ پس جہالت کی توپوں سے کوئی بھی خوفزدہ نہیں، سوائے ان‘توپچیوں‘‘ کے جن کی توپوں کا رخ اپنی ہی سر زمینوں کی طرف ہے۔

ایک دلچسپ مفروضہ ہم نے گھڑ رکھا ہے کہ آج کا پوسٹ گریجویٹ نوجوان علم میں پرانے زمانے کے آٹھ جماعت پاس بزرگ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یاد رہے کہ پرانے زمانے کے تعلیم یافتہ سے مراد وہ افراد ہیں، جنہوں نے ’پیجن= کبوتر، اُڈن = فلائی‘‘ جیسے اسلوب سے انگریزی سیکھی تھی اور آج جب انہیں موبائل یا انٹرنیٹ کا شوق چراتا ہے تو پانچویں جماعت کے طالب علم اپنے پوتے کو آواز دے کر کہتے ہیں ’پتر! اے مینوں سمجھائیں نا ذرا‘‘۔ کیا احمقانہ مفروضہ ہے صاحب؟ کیا فقط سات، آٹھ برس تک اردو، انگریزی اور حساب کی کتابوں سے کشید کیا گیا علم اتنی بڑی بلا ہے کہ آج کے او لیول، اے لیول، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کمپیوٹر سائنس، میڈیکل سائنس، جیولوجیکل سائنس، سافٹ ویئر انجینئرنگ، بائیو انفارمیٹکس، آئی سی ایم اے اور بزنس ایڈمنسٹریشن جیسے لا تعداد محیرالعقول شعبوں کی جدید تعلیم اس کے سامنے ہیچ ہے؟ جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ آج کا گریجویٹ ہاتھ سے درخواست بھی نہیں لکھ سکتا تو گزارش ہے کہ اس ڈیجیٹل عہد میں ہم نے اپنے بوسیدہ نصاب میں فیس معافی کی درخواستوں، والد کے نام تعلیمی اخراجات کے منی آرڈر بھیجنے جیسے خطوط اور مسخ شدہ تاریخ کو خواہ مخواہ گھسیڑ رکھا ہے۔ انٹرنیٹ کے عہد میں ایسے ’علوم‘‘ قدیم المیعاد ہو چکے ہیں، جن کا عملی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں ان دیمک زدہ چیزوں کی بجائے اپنے بچوں کو صحیح تاریخ اور جدید سائنسی تعلیم دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔

ہماری ہر نئی حکومت کے اکابرین ورثے میں ملنے والا مفروضہ دہراتے ہیں کہ ملکی مسائل ان کو ورثے میں ملے ہیں۔ وہ انتخابات سے قبل اقتدار میں آتے ہی دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے عزم صمیم کرتے ہیں مگر ایوانوں میں آنے کے بعد انکشاف کرتے ہیں کہ ان کے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں کہ ورثے میں ملنے والے مسائل پلک جھپکتے ہی حل ہو جائیں۔ اس مایہ ناز مفروضے پر ہم اپنی ہی ایک تحریر کا اقتباس پیش کرتے ہیں:

‘سوال: ورثے میں ملنے والے مسائل کی تعریف کریں۔ ہر حکومت کو مسائل ورثے ہی میں کیوں ملتے ہیں، وہ خود کیوں نہیں پیدا کر لیتی جبکہ اس کے پاس وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج موجود ہوتی ہے؟

جواب: ہماری ہر حکومت، آنے والی حکومت کے لئے نیک نیتی سے کئی مسائل چھوڑ کر جاتی ہے۔ مثلاً تباہ حال معیشت، مہنگائی، لا قانونیت، دہشت گردی، بے روزگاری، غربت اور لوڈ شیڈنگ وغیرہ وغیرہ۔ اس کار خیر کے پیچھے یہ حکمت کار فرما ہوتی ہے کہ نئی حکومت کے اکابرین کی مصروفیت کا کچھ ساماں کیا جائے تاکہ وہ فارغ بیٹھ کر ہڈ حرامی کا شکار نہ ہو جائیں۔ ان مسائل کو ورثے میں ملنے والے مسائل کہا جاتا ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ آخر حکومتوں کو مسائل ورثے ہی میں کیوں ملتے ہیں؟ تو اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اگر ورثے میں نہ ملیں تو کیا نئے حکمران مسائل گھر سے ’جہیز‘‘ میں لے کر آیا کریں؟ سوال کے آخری حصے کا جواب بھی بڑا سادہ مگر پر وقار ہے کہ دوران حکومت یہ فوج ( مراد وزیروں، مشیروں کی فوج ہے ) ’وسائل‘‘ پیدا کرنے کے چکر میں رہتی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہماری فوج (پھر مراد وزیروں، مشیروں کی فوج ہے ) مسائل پیدا ہی نہیں کر سکتی۔ در حقیقت ’وسائل‘‘ پیدا کرنے کے عمل کے رد عمل میں مسائل خود کار طریقے سے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ نیز ورثے میں ملنے والے مسائل حل کرنے کے سلسلے میں فوج ( یہاں بھی مراد وزیر وں، مشیروں کی فوج ہے ) جو ’لکی ایرانی سرکس‘‘ لگاتی ہے، اس سے بھی نئے نئے مسائل جنم لیتے ہیں، جنہیں یہ فوج ( مراد آپ سمجھ گئے ہوں گے ) آنے والی حکومت کے لئے چھوڑ کر رخصت ہو جاتی ہے‘‘۔

یادش بخیر! فاضل شائقین مذاکرات ہمراہ سفاک دہشت گرداں نے کبھی مفروضہ گھڑا تھا کہ اگر دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن ہوا تو وہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ فاضل شائقین مذکور صدق دل سے سمجھتے تھے کہ وہ ہمارے ناراض بھائی ہیں، جو جنت میں جانے کی خاطر ہماری مساجد، پبلک مقامات اور تعلیمی اداروں میں ہمارا اور ہمارے بچوں کا خون بہاتے ہیں۔ آج آنکھوں اور کانوں والے ناہنجار پوچھتے ہیں کہ وہ مفروضہ کیا ہوا؟

کیا فقط سات، آٹھ برس تک اردو، انگریزی اور حساب کی کتابوں سے کشید کیا گیا علم اتنی بڑی بلا ہے کہ آج کے او لیول، اے لیول، انفارمیشن ٹیکنالوجی، کمپیوٹر سائنس، میڈیکل سائنس، جیولوجیکل سائنس، سافٹ ویئر انجینئرنگ، بائیو انفارمیٹکس، آئی سی ایم اے اور بزنس ایڈمنسٹریشن جیسے لا تعداد محیرالعقول شعبوں کی جدید تعلیم اس کے سامنے ہیچ ہے؟
بشکریہ دنیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).