کیا شاہ عبدالطیف بھٹائی واقعی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندہ شاعر تھے؟


سندھ میں رہبروں کے رہبر شاہ عبدالطیف بھٹائی کا 275 واں عرس کل بھٹ شاہ میں اختتام پذیر ہوا۔ لیکن اس میلے کی سرکاری ادبی مذاکرے میں پروگرام کے میزبان ڈاکٹر شیر مہرانوی نے اچانک لطیف سائیں کے کردار کے حوالے سے بے تُکی ہانک دی۔ ڈاکٹر شیر نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں شاہ لطیف اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ تھا۔ سرکاری پروگرام کےاس میزبان شیر مہرانوی کو تو اسی میلے میں لطیف ایوارڈ سے نواز دیا گیا ہے مگر، پورے سندھ بلکہ دنیا بھر میں جہاں بھی سندھی بستے ہیں وہاں اس بات پر ایک طوفان کھڑا ہو گیا ہے اور لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے غصہ کا اظہار کر رہے ہیں۔

ادبی مذاکرے کے میزبان کی اس غلاظت پر احتجاج اور غصہ تو اسی پروگرام میں شروع ہو گیا تھا جب لطیفیات کے ماہر پروفیسر قلندر شاہ لکیاری، مدد علی سندھی، سارنگ جویو، مخمور بخاری، اشتیاق انصاری اور دیگر نے اسی وقت اس بات کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا مگر سندھ بھر میں شدید غصہ کی لہر اس وقت فورا چھا گئی جب یہ بات سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔ پروگرام کے میزبان شیر مہرانوی پر اب تک لاکھوں لوگ اپنا غصہ نکال چکے ہیں اور ان کو ایک سوچی سمجھی سازش کا مہرہ قرار دے رہے ہیں جبکہ، سندھ حکومت، جن کا یہ پروگرام تھا، وزیر ثقافت سردار شاہ صاحب اورسیکریٹری ثقافت اکبر لغاری کو بھی اس معاملے کا ذمے دار ٹہرایا جا رہا ہے۔

لطیفیات کے ماہرین کا اس معاملے پہ کہنا ہے کہ شاہ لطیف کو اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ قرار دینا اصل میں سندھ کے جمہوری مزاج کو داغدار بنانے کی کوشش ہے۔ اس سلسلے میں پروفیسر انعام شیخ کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت خوف اور لالچ کی وجہ سے کی جاتی ہے، لطیف سائیں فقیرمنش اوروطن دوست دانشور ہونے کی وجہ سے اس دباؤ میں نہیں تھے۔ مدد علی سندھی کا کہنا ہے کہ لطیف سائیں کا کلام ”شاہ جو رسالو“۔ کی ہر ایک سطر اینٹی اسٹیبلشمنٹ، عوام دوست اور مزاحمتی ہے۔ پروفیسر قلندر شاہ لکیاری کا کہنا ہے کہ لطیف سرکار پر تحقیق کرتے ہماری عمر گزر گئی ان کے رہن سہن اور کلام میں ہمیں ایک لفظ بھی وقت کی سرکار کی حمایت میں نہیں ملا مگر ان کی مخالفت میں پورا رسالہ بھرا پڑا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر شاہ لطیف کو اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ قرار دینے کی بات پر اتنا بڑا طوفان کیوں اٹھ آیا ہے کہ دو دن سے تھم نہیں رہا اور پوری دنیا کے سندھی سوشل میڈیا پر دن رات یہ بات کرنے والوں اور کرانے والوں پر طبرہ کر رہے ہیں، اس کا جواب میں ایک سال پہلے ہی میں ہم سب پر اپنے مضمون۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی کا آخر سندھ سے تعلق کیا ہے؟ میں لکھ چکا ہوں کہ،
”اگر ہم موئن جو دڑو سے ہی سندھ کی تاریخ کا کھاتہ کھولیں تو بھی سندھ کی پانچ ہزارسالہ تاریخ میں سندھیوں پر سب سے زیادہ اثرجس شخص کا رہا ہے وہ شاہ عبدالطیف بھٹائی ہیں“۔

سندھی پیپلز پارٹی کا ہو یا مسلم لیگ کا۔ جیے سندھ کا ہو یا جماعت اسلامی کا، پیر صاحب پگارہ کا مرید ہو یا مخدوم امین فہیم کا، پروفیسر ہو یا کوئی ان پڑھ گنوار، گاؤں کا ہو یا شہر کا، ڈاکٹر ہو یا بیوروکریٹ، شاعر ہو یا ادیب، عورت ہو یا مرد، جوان ہو یا بوڑھا، ہندو ہو یا مسلمان، سکھر میں رہنے والا ہو یا نیویارک میں، ایک دوسرے کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق رکھنے والے بھی سندھیت کے حوالے سے بھٹائی کو اپنا رہبر مانتے ہیں۔

لطیف کی شاعری کا کمال ہی تو ہے کہ اگر کوئی فوت ہو جاتا ہے تو لطیف پڑھ کر دکھ بانٹا جاتا ہے، شادی ہوتی ہے تو لطیف پڑھا اور گایا جاتا ہے، سیاسی جلسہ ہو، کسی کی تقریر ہو یا کوئی بھی تقریب ہو شروعات لطیف سے ہوتی ہے، اختتام بھی لطیف کے شعر سے ہوتا ہے۔ کوئی لو لیٹر لکھنا ہو، شادی کارڈ چھپوانا ہو، کوئی بینر بنوانا ہو، کوئی پوسٹر ہو یا کوئی اسٹیج پروگرام شروع کرنا ہو، سندھ میں ہر طرف جیئے لطیف کی صدا ہی ہوتی ہے۔

ون یونٹ اور مختلف آمریتی ادوار میں جب صوبوں کی اصل پہچان مٹا دی گئی تھی تو شاہ لطیف کو بھی ایک سنت اور پیر مشہور کرنے کی مہم زور پکڑ رہی تھی۔ ایسے میں سائیں جی ایم سید نے کتاب پیغامِ لطیف لکھ ڈالی۔ پھر کیا تھا، لطیف درگاہوں، دعاؤن اور منتوں سے واپس اپنے آفاقی انقلابی پیغام کی طرف لوٹ آیا۔ شاہ لطیف کا یہ آفاقی پیغام،
سائیں سدائیں کرین مٿی سندھ سُکار
دوست مٹھا دلدار، عالم سب آباد کرین۔
ہے جس کا مطلب ہے، اے میرے مالک سندھ کو ہمیشہ سر سبز اور خوشحال رکھنا اور ساتھ ہی پوری دنیا کو آباد رکھنا۔

ایسے مرشد کے لئے سندھی، کسی بھی ایرے گیرے کا کوئی الزام سننے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب خود شاہ عبدالطیف بھٹائی کی درگاہ کے سجادہ نشین وقار شاہ لطیفی نے میلےمیں اپنے خطاب میں، شاہ سائیں کےاسی شعر،

سائیں سدائیں کرین مٿی سندھ سُکار
دوست مٹھا دلدار، عالم سب آباد کرین۔
کو سی پیک سے جوڑ کر کہا کہ تقریبا تین سو سال پہلے شاہ سائیں نے جو یہ بات کی تھی وہ آج سی پیک کی صورت میں تعبیر ہوئی ہے تو عوام نے ان کی بھی کلاس لینا شروع کردی ہے اور دو دن سے ان پر نہ صرف تنقید ہو رہی ہے بلکہ ان کی اس بات پرمارکیٹ میں لطیفے گردش کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments