آزادی اظہار میں اُردو اور انگریزی کی تفریق


\"Tanvirاپنی سوچوں اور جذبات و احساسات کو منظم طریقے سے دوسروں تک پہنچانے کی روایت بھی اتنی ہی پرانی جتنی کہ دماغ سے کام لینے کی۔ رنگ و نسل یا جغرافیائی مسکن کی کسی تفریق کے بغیر قریب قریب ہر انسان ان قدرتی صلاحیتوں کے اظہا ر کے معاملے میں کم و بیش یکساں صلاحیت کا حامل ہے لہٰذا اِن جذبوں کی نوعیت میں یکسانیت بھی فطری امر ہے۔ اسے تہذیب عصر میں ’آزادی اظہار‘ کے حق کا نام دیا جاتا ہے اور نظری طور پر اس کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کو اس ناقابل تنسیخ حق کے استعمال کی غیر مشروط آزادی حاصل ہونا چاہیے ، ماسوائے اُن مستثنیات کے جو معاشرتی زندگی میں باہم مشاورت اور رضامندی کے ذریعے نافذ کی جائیں۔
اصولی طور پر یہ بات نہایت خوبصورت دکھائی دیتی ہے لیکن عملی طور پرصورت حال خاصی مختلف ہے اور’ دام ہر موج میں ہے، حلقہ صد کام نہنگ‘ کے مصداق دنیا کے بہت سے معاشروں میں عوام کے بیشتر حصے کے لیے اس حق کے آزادانہ استعمال کے راستے میں بہت سی محسوس اور غیر محسوس رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں۔ہمارے معاشرے میں آزادی اظہار پر پائی جانے والی محسوس رکاوٹوں پر بہت سے دوست مختلف مواقع پر اور مختلف پہلوﺅں سے بہت مرتبہ سیر حاصل گفتگو کرچکے ہیں۔ اس وقت آزادی اظہار کے اس حق کے استعمال پر ایک غیرمرئی لیکن انتہائی آہنی گرفت والی رکاوٹ کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔یہ رکاوٹ ہے اُردو اور انگریزی ذارئع ابلاغ میں مختلف مسائل و موضوعات کے اظہار کے حوالے سے ’کھیل کے ضابطوں‘ میں پایا جانے والا واضح فرق ۔یقینا یہ فرق اتفاقیہ نہیںہے اور اس میں لامحالہ بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔تاہم اس صورت حال کے ذریعے حاصل کیا جانے والا اصل مقصد ہے عوام کی بڑی تعداد کو بظاہر مصروف رکھنے کے باوجود عملی طور پر لاعلم بلکہ جاہل رکھنا۔ہم جوں جوں اردو پریس کے نافذکردہ ’سیلف سنسر شپ ‘ کا انگریزی پریس کے ساتھ موازنہ کرتے چلے جائےں،ویسے ویسے یہ مسئلہ اپنی سنگینی کا نئے سے نیا رنگ دکھاتا چلا جاتا ہے۔
دُنیا کے ہر ملک کی ہئیت مقتدرہ ایک وسیع تر بیانیہ تشکیل دے کر عوامی ابلاغ کے ہر ذریعے کو بلاواسطہ یا بالواسطہ طریقے سے اسی وسیع تر بیانیے کی چار دیواری کے اندر رہنے کا پابند بناتی رہتی ہے۔ اظہار کی آزادی کے مثالی نمونوں کی حیثیت رکھنے والے مغربی معاشروں میں بھی یہ چاردیواری پائی جاتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہاں شہریوں کی تعلیم و تہذیب، شخصیات کی بجائے اداروں کی مضبوطی پر انحصار نیز شراکتی و مشاورتی جمہوری عمل پر صدیوں سے کاربند رہنے کے باعث کھیل کھیلنے کے اُصول اپنی تمام تر نزاکتوں اور باریکیوں کے ساتھ سبھی شراکت داروں پر واضح ہوچکے ہیں۔ چنانچہ یہ چاردیواری عملی طور پر اتنی زیادہ وسیع و عریض ہوچکی ہے کہ ہم جیسے کوتاہ چشم پردیسی اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ اِن معاشروں میں شاید کوئی چاردیواری سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔ دوسری طرف اگر ہم اپنے ملکی تناظر میں دیکھیں تو ایک ہی وقت میں ایک ہی میڈیا ہاﺅ س کی طرف سے شائع یا نشر ہونے والی اُردو اور انگریزی نشریات یا مطبوعات میں اس قدر تفاوت پایا جاتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ایک ادارے کے اردو ذرائع ابلاغ اپنی تمام تر کاوشوں کی صورت میں عوام کی جو ذہن سازی کرتے دکھائی دیتے ہیں بسااوقات اُسی ادارے کے تحت کام کرنے والے انگریزی ذرائع ابلاغ بالکل متضاد سمت میں سرگرم نظر آتے ہیں۔
اردو ذرائع ابلاغ کی صورت حال اور ان کے اندر پائے جانے والے کلچر کی تہہ میں بہت سے عوامل کارفرم رہے ہیں جنھیں پروان چڑھانے میں کئی دہائیوں کا عرصہ لگا ہے۔ بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ اردو پریس کے اصل صارفین اس معاشرتی اور سماجی درجہ بندی سے تعلق رکھتے ہیں جنھیں زیریں متوسط اور غریب طبقات کا نام دیا جاتا ہے۔اِن لوگوں کو ہر اہم ،غیر اہم معاملے میں ٹانگ اڑانے کا حق ہونا چاہیے اور نہ ہی ’حساس‘ موضوعات تک ان کی رسائی۔اسی مفروضے کے تحت کئی موضوعات پر بات کرنا شجر ممنوعہ ٹھہرا۔ان عامیوں کے لیے حب الوطنی ، مذہب،تہذیب واخلاقیات کا ایک ایسا ایڈیشن تشکیل دیا گیا جس میں چند چیزوں سے محبت کے لیے چند دیگرچیزوں سے شدید نفرت لازم قرار پائی۔عملاً اردو اخبارات کے لیے موضوعات کی ایک مخصوص فہرست ترتیب گئی جس میں مسائل سے زیادہ شخصیات کو زیر بحث لایا جاتا تھا۔ پھر سوچے سمجھے طریقے سے ہر اخبار میں ایسے ’مردان درویش‘ بھرتی کیے جاتے رہے جو ایک طرف تو اپنے تئیں قوم کی فکری راہنمائی کے منصب پر فائز سمجھتے تھے تو دوسری طرف یہ مردان باصفا اپنے رزق کے معاملے میں اخباری مالکان کے محتاج نہیں تھے۔ نجی ٹی وی چینلز کے آنے کے بعد انھی فقرا اور درویشوں کی اگلی نسلیں الیکٹرانک میڈیا کی طرف ہجرت کر گئیں اوراخبارات میںجو کچھ پس پردہ ہوا کرتا تھا وہ سبھی کچھ چھوٹی سکرین کے اس طرف واضح اور صاف دکھائی دینے لگا۔ اگرچہ قوم کی فکری راہنمائی کرنے کے جنون میں اب بھی کوئی بہت زیادہ تبدیلی پیدا نہیں ہوئی لیکن گزشتہ آٹھ دس برس کے دوران اتنا ضرور ہوا ہے کہ اردو پریس میں ریاستی بیانیے کے بنیادی خدوخال سے لے کر مذہب ، وطن پرستی اور قانون کی بالادستیجیسے معاملات کی سرکاری طور پر بیان کردہ تعبیرات پر بھی بات کا آغاز ہوا۔قبل ازیں ایک آدھ ماہنامہ، چند ہفت روزے اور ایک آدھ ہی روزنامہ ایسا تھا جو’ بڑوں‘ سے نصیحت لیے بغیر کالم اور مضامین چھاپ دیا کرتے لیکن یہ سبھی مرکزی دھارے سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔اخبارات میں اس قسم کی ایک مثال روزنامہ’آج کل‘ کی تھی جس نے متبادل موضوعات پر کالم اور آرا شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور رفتہ رفتہ یہ تجربہ مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ میں بھی جگہ پانے لگا۔اسی اثنا میں آن لائن اخبارات اور بلاگز اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع کی صورت میں ایک عام شہری کے لیے بھی اپنے گھر یعنی پاکستان کے معاملات میں رائے دینے کی گنجائش پیدا ہونے لگی۔یہ ابھی سفر کا آغاز ہے ،راستے میں دل کش اور نا خوشگوار ہر قسم کے پڑاﺅ آئیں گے۔ابھی بات چیت اور مکالمے کی روش پر چلنے کا آغاز ہوا ہے،ہم اپنے اسلوب کی تلخیاں دور کرکے مہذب اور مدلل طریقے سے بات کرنے کا چلن بھی سیکھ لیں گے ۔ اس جادہ پیمائی کی سب سے بڑی خوبصورتی یہی ہے کہ اس میں سفر بذات خود وسیلہ ظفر ہے، منزل پر پہنچنا (یانہ پہنچنا) یکسر ثانوی حیثیت کا حامل ہے۔
کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بجز اذن کلام
ہم تو اِنسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں

تنویر افضال لندن میں مقیم ایک تجربہ کار اردو صحافی ہیں۔ صحافت میں اک عمر گزارنے کے بعد کچھ عرصہ قبل کاروبار کی دنیا سے تعلق استوار کیا ۔ تاہم ابھی سامراجی سرمایہ دار نہیں بن سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments