احتساب اور ملک کی خاموش اکثریت


اس میں شک کس کو ہے کہ ملک و قوم کی اس ابتر حالت اور خدانخواستہ مزید بربادی کے کئی عوامل و اسباب ہو سکتے ہیں، کرپشن مگر بنیادی عامل و سبب ہے اور اس میں بھی کہ شفاف احتساب ہی اس ظلم کی واحد روک ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ اس معاشرے کا ہر مخلص فرد احتساب کے عمل کو خوش آئند قرار دیتا ہے۔

پھر موجودہ حکومت کے ”تایید کردہ“ احتساب کے اس عمل پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ حکومت کے بقول یہ لوگ اپنی کرپشن چھپانے کی کوشش میں ہیں جبکہ مخالفین اسے سیاسی انتقام بتا رہے ہیں۔ ایسے میں ملک کی خاموش اکثریت محو تماشا ہے، فریقین کو سن رہی ہے، اگرچہ جانتی ہے کہ جب کسی بدعنوان پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے تو لامحالہ اسے تکلیف ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مقدور بھر رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ بھی جانتی ہے کہ احتساب کو بطور سیاسی انتقام استعمال کیا جانا بھی خارج از امکان نہیں ہوا کرتا، یہ بارہا ماضی میں ہو چکا ہے۔ یہ نیوٹل طبقہ جب ”اب حقیقت کیا ہے، احتساب یا انتقام؟ “ کے اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکلتا ہے تو ان کی نظر ”پرویز مشرف“ پر جم جاتی ہے۔

پرویز مشرف کے بیرون ملک فلیٹس ہیں، مشرف فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد عوامی عہدہ رکھ چکے ہیں، لہذا مشرف کو زیرِ احتساب لانا غیرآئینی بھی نہیں۔ صرف دو کروڑ کا مالک شخص جب عہدہ سنبھالنے کے بعد ارب پتی بن جائے تو اس کا احتساب عین معقول بھی ہوا کرتا ہے۔

ملک کی خاموش اکثریت زبانِ حال سے کہہ رہی ہے کہ ایم ایم اے نامی دبئی کی آن لائن ٹریڈنگ کمپنی کے اکاؤنٹ نمبر AV 77777 میں مشرف صاحب کی ساڑھے چودہ کروڑ روپے کی خطیر رقم کی بابت مشرف سے بے شک آپ نہ پوچھیں، نہ ہی اس انتالیس کروڑ دس لاکھ روپے کی رقم کے بارے میں سوال کریں جو مشرف صاحب نے ابو ظہبی کے یونین نیشنل نامی بینک کے اپنے اور اپنی محترمہ صبا مشرف کے مشترکہ اکاؤنٹ نمبر 4002000304 میں رکھوائے تھے۔ یاد رہے کہ مذکورہ بینک ابو ظہبی کا انوسٹمنٹ بینک ہے۔

شاید یہ بھی الزام ہو کہ اسی بینک میں موصوف کے آٹھ اکاؤنٹ تھے، دوسرے کا نمبر 4002000315 ہے اور اس میں انوسٹمنٹ کے لیے رکھی گئی رقم تھی پانچ لاکھ پینتیس ہزار تین سو پچیس امیرکن ڈالر۔ تیسرا اکاؤنٹ # 4003006700 اور رقم چھہتر لاکھ درہم۔ چوتھے 4003006711 میں رقم اسی لاکھ درہم۔ پانچویں 4003006722 میں اسی لاکھ ڈالر۔ چھٹے 4003006733 میں اسی لاکھ درہم۔ ساتویں میں بھی اسی لاکھ درہم اور آٹھویں میں تیرہ لاکھ ڈالر۔ ممکن ہے یہ احمد نورانی ٹائپ لوگوں کے الزامات ہوں، اس لیے آپ مشرف صاحب سے ان دو ارب پندرہ کروڑ ساٹھ لاکھ پاکستانی روپے کی بابت نہ پوچھیں، ہمیں اعتراض نہیں۔

لیکن جن فلیٹس کا، کیش کا اور جائیداد کا خود مشرف نے اعتراف کیا ہوا ہے، اس کے متعلق پوچھا جانا احتساب کے لیے ناگزیر ہے۔ تیرہ کے ایکشن کے لیے کاغذات نامزدگی میں مشرف کے دیے ہوئے اپنے اثاثوں کے گوشوارے دیکھ لیں۔ مشرف نے اعتراف کیا کہ میرے پاس لندن کے کیسل پارک، کریسنٹ میں فیلیٹ ہے، جس کا رجسٹری نمبر NGL 906435 ہے اور مالیت لگ بھگ بیس کروڑ روپے ہے۔ دوسرا فلیٹ دبئی کے ساؤتھ رج ٹاور میں ہے، فلیٹ نمبر 3902 اور مالیت بیس کروڑ روپے۔ یہ چالیس کروڑ کہاں سے آئے تھے؟

مشرف نے کہا : نیشنل بینک کے مری برانچ والے میرے اکاؤنٹ میں اس وقت باسٹھ لاکھ ستاسی ہزار چار سو چوراسی روپیہ ہے، حبیب میٹرو پلیٹن کے پنڈی کینٹ والے برانچ کے میرے اکاؤنٹ میں سترہ لاکھ، عسکری بینک میں تراسی لاکھ وغیرہ وغیرہ آٹھ مختلف اکاؤنٹس میں میرے کروڑوں روپے موجود ہیں۔

مشرف نے کہا : ڈی ایچ اے کراچی کے خیابان فیصل فیز 8 میں میرا پلاٹ ہے، پلاٹ نمبر 172، جس کی تخمینہ ویلیو ہے ایک کروڑ پچاس لاکھ۔ کلفٹن کینٹ کراچی کے آرمی ہاؤسنگ اسکیم فیز ٹو میں میرا ایک مکان ہے، ہاؤس نمبر چھ جس کی مارکیٹ ویلیو کا تخمینہ ہے پانچ کروڑ روپے۔

ڈی ایچ اے فیز ٹو اسلام آباد، سیکٹر ایف میں پلاٹ نمبر ایک، مالیت پچاس لاکھ، ڈی ایچ اے لاھور، سیکٹر سی سی اے میں کمرشل پلاٹ، مالیت چھ کروڑ۔ فارم نمبر سی ون بی، چک شہزاد، اسلام آباد، مالیت چھ کروڑ روپے وغیرہ وغیرہ منقولہ و غیر منقولہ وہ جائیداد جس کی مجموعی مالیت مشرف کے بقول چھ سو چھبیس ملین روپے ہے اور جس کا موصوف اعتراف کر رہے ہیں، ملک کی خاموش اکثریت اس حوالہ سے نظر جمائے رکھی ہے کہ اگر احتساب یہاں بھی ہوا تو واقعی احتساب ہے ورنہ یہ سب یا تو سیاسی انتقام ہے یا کچھ اور ہی جس کا ذکر نواز بیانیہ میں ملتا رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).