کشکول اور کامیابی


پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ اس سوال کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے ان گنت مسائل کی جڑ کیا ہے؟ آپ میڈیا پر چلنے والے ٹاک شوز اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین یا سوشل میڈیا پر جاری سنجیدہ اور غیر سنجیدہ مباحث دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ روزبروز بگڑتی معیشت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے ایک مستحکم معیشت کا ہونا لازم ہے۔ غربت میں کمی، مہنگائی پر قابو پانا، روزگار کی فراہمی، بیرونی سرمایہ کاری، ٹیکس کا حصول کسی بھی مستحکم معیشت کی نشانیاں سمجھی جاتی ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک کی معیشت کو کس طرح سدھارا جاسکتا ہے؟ کیا یہ اس طرح ممکن ہوپائے گا کہ ہم مسکین شکل لئے دنیا بھر میں اپنی حالتِ زار کا رونا روتے پھریں اور پیسے حاصل کرنے جھولیاں پھیلاتے رہیں؟ پیسے دے دو بابا ہم ڈوب رہے ہیں، مر رہے ہیں۔ میری ناقص رائے میں ایسا ممکن نہیں۔ معیشت سدھارنے کے لئے ہمیں اپنے آپ کو سدھارنا ہوگا، اپنی اصلاح کرنی ہوگی، اپنے کھوکھلے پن پر غور کرنا پڑے گا اسے بھرنے کی کوئی سبیل کرنی ہوگی۔ اس لئے میرا ماننا ہے کہ کمزور معیشت اور خالی خزانہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے مسلے کی ایک نشانی ہے، اصل مسئلہ کوئی اور ہے۔

ساری خرابی فکر کی ہے، سوچنے کا انداز ہمیں رسوا کررہا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوگی۔ تقریباً بارہ سال مختلف پاکستانی اور بین الاقوامی غیر سرکاری اور غیر منافع بخش اداروں میں کام کرتے ہوئے ایک چیز بار بار میرے مشاہدے اور تجربے میں آئی، جو بہت تکلیف دہ بھی تھی اور وہ یہ کہ خیرات اور صدقات کے ذریعے گھر کا چولہا جلانے میں ہمیں کوئی تامل نہیں ہوتا۔ ہنگامی صورتحال میں این جی اوز کے پاس فنڈز بہت آتے ہیں، ان اداروں سے وابستہ افراد کی خوشی دیدنی ہوتی تھی جب کوئی پراجیکٹ مل جاتا، جوں جوں وقت گزرتا اور پراجیکٹ تکمیل کی جانب بڑھتا چہروں پر پریشانیاں ظاہر ہونے لگتیں۔

پراجیکٹ منظور ہونے کی خوشی اتنی بری بھی نہیں لیکن جب مطمع نظر تنخواہ اور حرام کی آمدنی ہو جس کے لئے یتیموں، بیواؤں، بزرگوں اور معاشرے کے پھسے ہوئے طبقات کا استعمال کیا جائے تو افسوس کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ ڈونرز کو رام کرنے کے لئے ایسے ایسے حربے استعمالکیے جاتے کہ بندہ سوچ کر بھی شرمسار ہوجائے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ جب یہی لوگ اکٹھے بیٹھ جاتے تو اپنی حکومت پر انہی باتوں پر تنقید کرنے جنہیں خود صبح و شام دہراتے رہتے۔

سوچ کی یہ تبدیلی کہاں سے شروع ہوتی ہے، یقیناً اپنے آپ سے لیکن یہ کام ان لوگوں کا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو قیادت کے لئے پیش کیا ہوتا ہے۔ عمران خان دو عشروں سے زائد انہیں خطوط پر اپنی جدوجہد استوارکیے ہوئے تھے، جس سے دلوں میں بجا طور پر یہ امید پیدا ہوئی کہ اقتدار کی منزل پا کر وہ پاکستانی سماج میں سوچ کی تبدیلی کی جانب قدم اٹھائیں گے۔ ان کی باتیں سن کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے دل و دماغ میں اب بھی تبدیلی کا یہ خاکہ موجود ہے لیکن اس کے لئے ان کے پاس کوئی قابل عمل منصوبہ نہیں۔ قوم میں تبدیلی کی خواہش کو مہمیز دینا ایک بات ہے لیکن اس خواہش کو قابل عمل اور قابل حصول بنانا دوسری۔ لوگوں کی آنکھوں میں امید کے دیے روشن کرنا بلاشک وشبہ ایک کارنامہ ہے لیکن اس روشنی کو بڑھاتے رہنا اور امیدوں کو عمل میں متشکل کرنا اصل کام ہے۔

وہی کاسہ گدائی جس پر عمران خان چیخ چیخ کر تنقید کرتے تھے اگر وزیراعظم بن کر ان کے ہاتھوں میں آگیا ہے تو امید کی شمع کس طرح روشن رہ پائے گی۔ طفیلی معیشت کس طرح ثمر بار ہوسکتی ہے؟ میرے خیال میں وزیراعظم صاحب کو روزانہ کچھ وقت نکال کر اپنی ہی کہی ہوئی باتین سننی چاہیے۔ اس طرح انہیں پتہ چلے گا کہ وہ مختلف اوقات میں اپنی قوم سے کیا کیا وعدے کرتے آئے ہیں۔ سوچ کی وہ تبدیلی جو وزیراعظم صاحب کے خطبات اور مباحث کا بنیادی نقطہ رہا ہے اب عملاً ان کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے، اگر کوئی کامیابی ملنی ہے تو یہی سے ملنی ہے، کشکول لے کر پیسے مانگنے سے اگر کامیابی ملتی تو گزشتہ حکومتیں کبھی بھی ناکام نہیں ہوتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).