پاکیزہ ثقافت اور نجس خواتین


گلگت بلتستان پاکستان کا واحد قبائلی خطہ ہے جہاں کی خواتین بہت حد تک خود مختار اور زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دے رہی ہے۔ ان خواتین نے اپنے ہنر اور صلاحتیوں کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں علاقے کا بہترین امیج پیش کیا ہے۔ 2016 ء کو اپر ہنزہ گوجال کے ایک گاؤں گلمت جانے کا اتفاق ہوا تو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہاں ایک بین الاقوامی این جی او کے مالی تعاون سے ’بلبلک میوزک سکول‘ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

جس میں لڑکے اورلڑکیاں میوزک سیکھ رہے تھے۔ اس میوزک سکول کے طالب علموں کے گانے اور موسیقی کی سینکڑوں وڈیوز ملکی و بین الاقوامی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ جبکہ قلعہ التت سے ملحقہ ’ شقم انٹر پرائزز‘ میں خواتین ووڈ ورکس سیکھ رہی تھیں۔ گلگت بلتستان سمیت پورے ملک کا نام عالمی برادری میں روشن کرنے والی کم سن لڑکی ثمینہ بیگ کا تعلق بھی اپر ہنزہ سے ہے جنہوں نے دنیا کی سات بلند ترین چوٹیوں کو سرکر کے ریکارڈ قائم کیا ہے۔

اس کے علاوہ کھیل ہو کہ ثقافت، سماج ہو کہ معیشت یا سیاست ہر جگہ یہاں کے خواتین نمایاں نظر آتی ہے۔ لیکن سماج کا ایک مخصوص ذہن یہ سب کچھ ہضم نہیں کر پا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وقتا فوقتا مختلف قسم کے پروپیگنڈوں سے خواتین کی حوصلہ شکنی کرنے میں مصروف ہے۔ پچھلے دنوں ایک نجی ٹی وی کے مارننگ شو میں دو لڑکیوں نے اپنی اور اپنے خاندان کی اجازت سے رقص پیش کیا پھر کیا تھا مذہب اور ثقافت کے خود ساختہ ٹھیکیداروں کی جانب سوشل میڈیا پر طوفان بلکہ طوفان بدتمیزی برپا ہوا کہیں مذہب کا نام لے کر ان خواتین اور ان کے خاندانوں کو ہراساں کرنے کی کوشش ہوئی تو کسی نے ثقافت کے نام پر انہیں طوائف تک کا خطاب دیا۔

چونکہ ان لڑکیوں کا تعلق اسماعیلی کمیونٹی سے تھی تو پوری کمیونٹی پر الزام لگادیا گیا کہ رقص اس کمیونٹی کے عقائد میں شامل ہے، لیکن سماج کے ان ٹھیکیداروں سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ اگر رقص و موسیقی اسماعیلی عقائد کا حصہ ہے تو اس میں کیا برائی، خود کش حملے، دہشتگردی اور بچوں و بچیوں کا ریپ تو ان کے عقائد میں شامل نہیں نا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کے عقائد میں رقص وموسیقی شامل ہے تو کسی دوسرے فرقے کے لوگوں کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ دوسروں کے عقائد پر کیڑے نکالتے رہے؟ اس کے جواب میں اسماعیلی کونسل نے بھی دفاعی پوزیشن اختیار کر لی اور فورا جواب دے دیا کہ مخلوط رقص ہماری پاکیزہ ثقافت کا حصہ نہیں لہذا ہم ان کی مذمت کرتے ہیں۔

یہ اسماعیلی لیڈرشپ کی منافقت ہے یا کچھ اورکہ گزشتہ کئی سالوں سے اپر ہنزہ گوجال کا بلبلک میوزک سکول موسیقی کی مخلوط محفلوں کی وڈیوز ریلیز کرتی آئی ہے، اسی ہنزہ کے کئی ہونہار لڑکیا ں اسلام آباد سمیت مختلف علاقوں میں جاکر پرفارمنس کرچکی ہے۔ آغاخان یوتھ اینڈ اسپورٹس بورڈ کی جانب سے گزشتہ کئی سالوں سے جوبلی گیمز اور جوبلی میوزیکل مقابلوں کا انعقا د ہوتا رہا ہے اور ان میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں حصہ لیتی آئی ہے۔ لیکن اب جبکہ دوسری کمیونٹی کی جانب سے سوشل میڈیا پر تنقید ہوئی تو فورا ردعمل دینا پڑا۔

ہم ایک منافق سماج کے رہائشی ہے یہاں خودکش حملہ آووروں، دہشتگردوں، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے وحشی درندوں کی وجہ سے نہ مذہب کو کوئی خطرہ ہوتا ہے اور نہ ہی نام نہاد پاکیزہ ثقافت کو۔ البتہ اگر کوئی خاتون روایت شکنی کا مظاہرہ کرکے مردوں کے ہم پلہ آنے کی کوشش کریں تب ثقافت بھی برباد ہوجاتی ہے اور دین کو بھی شدید خطرات لاحق ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

گلگت بلتستان کے غیرتمند مردوں کو شاید علم ہو کہ بیرونی دنیا میں اس خطے کی پہچان چند ایک لڑکیاں ہے جنہوں نے ماونٹ ایورسٹ سر کرنے سے لے کر کرکٹ، فٹبال، میڈیا، تعلیم اور سماجی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا وگرنہ گلگت بلتستان سے کہیں خوبصورت جگہیں تو وزیرستان میں بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).