ڈھیلا پجامہ ایٹ ہاٹ میل ڈاٹ کام


اس دفعہ میں نے میمن لڑکی پھنسائی۔ گذشتہ چار سالوں میں میں کئی لڑکیوں کو پھنسا چکا تھا۔ پنجابی، گجراتی، پٹھان، یوپی والی، حیدر آباد دکن کی۔ صرف بہاری لڑکی نہیں پھنسی تھی۔ ہوا یہ کہ جس بہاری لڑکی کو پھنسانے کا چکر چل رہا تھا اس نے میرے ایک ای میل کی کاپی اپنے بھائی کو بھی بھیج دی۔ پھر یکایک میرے ای میل ایڈریس پر اس طرح سے حملے شروع ہوئے کہ میں تو گھبرا گیا۔ اس کے بعد میرا معمول تھا کہ بہاری شناخت کو سب سے پہلے خارج از امکان کردیتا تھا۔

میرا طریقہ واردات بہت سادہ تھا۔ جو لوگ میرا نشانہ بنتے، ان کی اکثریت مالدار تھی کیونکہ میرے اس کھیل میں کمپیوٹر کا بہت بڑا کردار ہے۔ لڑکی کتنی بھی خوبصورت اور کتنی بھی سادہ کیوں نہ ہو، اگر کمپیوٹر اس کے پاس نہیں ہے تو میں اس سے رابطہ کرہی نہیں سکتا کیونکہ میرا کھیل تو شروع ہی آن لائن چیٹ سے ہوتا ہے۔ لہٰذا لڑکی کے پاس کمپیوٹر اور اس کے ساتھ انٹرنیٹ کی سہولت ہونا بہت ضروری ہے۔

انٹرنیٹ بھی کیا چیز ہے۔ گذشتہ دس پندرہ سالوں میں انٹرنیٹ نے جس طرح سے دنیا کو ایک دوسرے سے بالکل قریب کردیا ہے اس کا اندازہ کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اب دیکھ لیں کوئی آدمی چا کیواڑہ میں بیٹھ کر امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود کتابوں کو دیکھ سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا بات ہوسکتی ہے اور اب تو انٹرنیٹ پر کیا کام نہیں ہوسکتا ہے۔ دنیا جہاں کی خریداری سے لے کر جنسی مزے، دوکان میں ہر چیز موجود جس کو جو چاہے لے جائے۔ سرمایہ داری کے اس کمال کے بارے میں کا رل مارکس اور لینن نے بھی شاید کچھ نہیں سوچا ہوگا۔ آج کے زمانے میں مارکس ہوتا تو شاید انٹرنیٹ کو بھی پرولتاریہ کاہتھیار قرار دے دیتا جس پر سرمایہ داروں نے قبضہ کرلیا ہے۔

انٹرنیٹ کی دنیا نے ہماری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہر لحاظ سے صورت حال مختلف ہوگئی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے گھروں سے نکلے بغیر گھروں سے بہت دور نکل چکے ہیں۔ جو باتیں ان سے چھپائی جاتی ہیں انٹرنیٹ کے ذریعے سے وہ ان باتوں سے آگے جان جاتے ہیں۔ شراب خانوں او رنائٹ کلبوں کے بارے میں۔ پلے بوائے اور پلے گرل کے قصّے، ہالی وڈ اور بالی وڈ حسیناؤں کی ننگی تصویریں اور ان سب سے بڑھ کر طرح طرح کے لائف شو جو ہر وقت چل رہے ہوتے ہیں، بٹن دبا ئیں اور حاضر، کمپیوٹر نہیں ہوگیا الہ دین کا چراغ ہوگیا۔

توبات ہورہی تھی لڑکیاں پھنسانے کی بلکہ زیادہ صحیح تو یہ ہوگا کہ الیکٹرونک راستوں سے لڑکی پھنسانے کی۔ طریقہ بہت سادہ ہے۔
میں نے بہت سارے اپنے ای میل کے اکاؤنٹ کھولے ہوئے ہیں مختلف ناموں سے۔ اور انہی ناموں کا سہارا لے کر مختلف قسم کے بحث و مباحثوں میں شامل ہوجاتا ہوں۔ بٹن دبایا اور نئی دنیا کے دروازے کھل گئے۔

آن لائن چیٹ میں گھس جانا بڑا آسان ہے رات کی تنہائیوں میں اکثر آن لائنوں میں چلا جاتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ کیا بحث چل رہی ہے۔ مذہب کے بارے میں، اخلاقیات کے بارے میں، سماج کے بارے میں، امریکہ کے بارے میں، القاعدہ کے بارے میں، کشمیر کا جھگڑا، فلسطین کا مسئلہ، جانوروں کے حقوق، ایٹمی جنگ کی تباہی، مادھوری ڈکشٹ کی شادی اور ہونے والے بچے کی کہانی۔ ٹام کروزکیا کررہا ہے، مائیکل جیکسن کیسے چھوٹ گیا، عراق کا کیا حشر ہوگا، سعودی شہزادوں کی راتیں کیسی گزرتیں ہیں۔ عرب حسیناؤں سے کیسے ملا جاسکتا ہے اور یہاں تک کہ کچھ پاکستانی ایکڑسوں کی ہر طرح کی تصویروں کے بارے میں بھی گفتگو ہوتی ہے۔ انہیں دیکھا جاسکتا ہے دنیا اگر آگے جارہی ہے تو ہم پاکستانی بھی بہت آگے جارہے ہیں۔ اگر گٹر کے نالے درست نہیں کرسکتے ہیں تو کیا ہوا، ایٹم بم تو بناسکتے ہیں۔ ریلوں کے نظام کی خرابی سے کیا فرق پڑتا ہے، میزائل کا نظام صحیح ہونا چاہیے۔ اگر بالی وڈ اور ہالی وڈ کی حسینائیں انٹرنیٹ پر آسکتی ہیں تو لولی وڈ کیوں پیچھے رہے۔

ایسی ہی کسی گفتگو کے دوران جو لڑکیاں گفتگو میں شامل ہوتی ہیں انہیں میں نشانہ بنالیتا ہوں، پھر آن لائن جنرل باتیں کرتے کرتے ہم پرائیوٹ لائنوں پر شفٹ ہوجاتے ہیں۔ ان پرائیوٹ لائن پر پھر پرائیوٹ باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ شروع تو وہ بڑے معمولی طریقے سے ہوتی ہیں، بالکل معصوم قسم کی باتیں جنھیں پڑھ کر ہنسی آجائے مگر دو چار مہینے میں ہی یہ معمولی باتیں ذاتی باتیں بن جاتی ہیں۔ لڑکی کی پسند نا پسند کا پتہ لگ جاتا ہے، اس کی تعلیم خاندان کے بارے میں آگہی ہوجاتی ہے پھر اس کے ڈیزائن کے مطابق عشق وعاشقی کا سلسلہ شروع کردیتا ہوں۔ ڈیزائن ہر ایک کا الگ ہوتا ہے مگر آخر میں وہی ہوتا ہے جو میں چاہتا ہوں۔

زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ لڑکی ہی ملاقات کی خواہشمند ہوتی ہے اور پھر ملاقاتیں ہوتی ہیں۔ ملاقاتوں میں پھر بہت کچھ ہوجاتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس ساری محبت اور رَت جگی کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ہوتا بھی نہیں ہے۔

لڑکیوں کو تو شاید محبت بھی ہوجاتی ہے وہ زندگی کے نت نئے خواب بھی بننے لگتی ہیں وعدے لے لیتی ہیں، وعدے کرلیتی ہیں۔ وہ تو اپنے وعدوں میں سچی ہوتی ہیں۔ مگر میرے وعدے تو صرف وعدے ہوتے ہیں اور وعدوں کا کیا۔ ایک وقت میں کئی کئی لڑکیوں سے کئی کئی وعدے کررہا ہوتا ہوں میں۔ اگر ان سب وعدوں کو پورا کرنے بیٹھ جاؤں تو پھر ایک حرم ہی آباد کرنا پڑے گا اور آج کل حرم کا زمانہ نہیں ہے۔ بعض لڑکیاں دوبارہ بھی ملنے کی کوشش کرتی ہیں، بعض دفعہ دھمکیاں بھی دیتی ہیں لیکن انہیں میں عام طور پر اپنے ہی موبائل سے کھینچی ہوئی ان کی اور اپنی ایسی تصویر بھیج دیتا ہوں جو کسی کو دکھانے کے قابل نہیں ہوتی ہے پھر وہ بات نہیں کرتی ہیں۔ یہ ضروری ہے اس کام میں۔ ایک بار مقصد پورا ہوا تو کام بھی ختم۔ جب کام ختم تو ملاقات کا ہے کی، بات کاہے کی۔

اس کام میں وقت کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی لگتا ہے۔ پیسے کی میرے پاس کمی نہیں ہے۔ ہمارا اپنا کاروبار ہے، کئی دھندے ہیں ہمارے۔ اسٹاک ایکسچینج کا بھی کام ہے۔ ٹیکسٹائل میں بھی لینا دینا ہے، کچھ ایکسپورٹ بھی ہے کچھ امپورٹ بھی۔ حصّہ داری بھی ہے۔ پاپا نے کام پھیلایا ہوا ہے، دن رات لگے رہتے ہیں گھر سے آتے ہوئے گاڑی میں فٹ پاتھ پر، لفٹ میں، ٹوائلٹ میں فون ہمیشہ ان کے پاس ہوتا ہے۔ پیسے کا جدھر فائدہ ہو ادھر ان کارخ ہوجاتا ہے۔ وہ منٹوں میں اِدھر کا مال اُدھر اور اُدھر کا مال اِدھر کردیتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2