نادیدہ بھوت اور دیدنی خلائی مخلوق


بھوت پر یت اور جنوں کی کہانیاں تو آپ نے بہت سنی ہوں گی لیکن دیکھنے کا اتفاق شاید ہی کسی کوہوا ہو۔ اس کے برعکس خلائی مخلوق پر بات بہت کم ہوتی ہے لیکن شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے خلائی مخلوق دیکھی نہ ہو۔

میرے ایک بہت ہی قریبی دوست کے بھائی ایک خفیہ ایجنسی کے لئے کام کرتے ہیں فرائض منصبی کی غرض سے بیرون ملک تعیناتی پر تھے ان کے بھائی یعنی ہمارے دوست ان سے ملنے گئے تو واپسی پر انہوں نے اپنے ایک کولیگ ایجنٹ کا کچھ سامان ان کے گھرڈلیورکرنے کی فرمائش کی یہ وضع دار آدمی ہیں ساتھ لے آئے۔

گھرکا پتہ معلوم نہیں تھا صرف ایک فون نمبرتھا فون کرکے علاقے کا پوچھا جو راولپنڈی کے نواح میں تھا اور سوچا کہ گلی اور مکان نمبروہاں جا کردوبارہ پوچھ لوں گا بیگ گاڑی میں رکھا نکل پڑے وہاں پہنچے اور فون ملایا تو فون بند تھا۔ یہ کِتھا ایک محفل میں خود انہوں نے ہی سنائی کہ سمجھ نہ آئے اب کیا کروں؟ کچھ دیرانتظارکیا دوبارہ فون کیا لیکن پھربند۔ پندرہ منٹ مزید انتظارمیں گزارے کہ ہوسکتا ہے انسان ٹوائلٹ میں ہو، نہا رہا ہو، نماز پڑھ رہا ہویا فیملی کے ساتھ کہیں مصروف ہو لیکن اس کے بعد بھی فون بند ہی رہا۔ تب پر یشیانی ہوئی کہ اب کیا کیا جائے۔

ایک آپشن تویہ تھا کہ واپس چلاجاؤں اور پھرکسی دن دوبارہ حاضرہوکران کا بیگ ان کے حوالے کروں۔ دوسری صورت یہ تھی کہ ان کا نام چونکہ معلوم ہے اس لیے محلے میں نام بتا کرتلاش کی کوشش کروں۔ دوبارہ آدھے پونے گھنٹے کی ڈرائیو کرکے آنا مشکل لگا سو نصف گھنٹہ تلاش کا فیصلہ کیا اور سوچا کہ وقت مقررہ میں کوشش بارآورثابت نہ ہوئی تو واپس چلا جاؤں گا۔

جس گلی میں موجود تھے وہیں سے سرچ آپریشن کا آغاز کیا ٹھیلا، ریڑھی، ہٹی یہاں تک کہ ایک دوگھروں پر دستک دے کر بھی پوچھا دوچارگلیاں چھان پر ہمت ہارنے کو تھا کہ ایک شخص نے بتایا گلی کی نکڑ پر کریانے کی جودکان ہے اس پر چلے جائیں بزرگ آدمی ہیں دو دہائیوں سے دکان چلا رہے ہیں یہ گھر ان کے سامنے بسے ہیں اس لیے تقریباً ہرشخص کو جانتے ہیں یہ جان کر پھرحوصلہ پکڑا اور اس دکان کا پوچھتے اس تک جا پہنچے۔ سلام دعا کے بعد مدعا بیان کیا فوراً بولے کہ بھائی یہاں تواس نام کے چارافراد رہتے ہیں آپ کو کن کی تلاش ہے؟

اب یہ حضرت سوچ میں پڑ گئے کہ خفیہ ایجنسی کا بندہ جو خفیہ تعیناتی پر ہے اسے کیسے افشاء کریں، قومی ذمہ داری ہے اس کا تحفظ کیا جائے اس لیے جواب دیا کہ وہ سرکاری ملازم ہیں؟ دکاندارنے کہا کہ اس نام کے چاروں افراد ہی سرکاری ملازم ہیں۔ خجالت مٹانے کے لئے یہ صاحب فوراً بولے کہ وہ شاید وزارت دفاع میں ملازم ہیں؟ دکاندارنے حلیہ پوچھا اور بتانے پر سرہلاتے ہوئے بولے یوں کہیں نا ان صاحب سے ملنا ہے جو فلاں خفیہ ایجنسی میں کام کرتا ہے؟ اِن صاحب کا منہ کھلا رہ گیا کہ جس راز کو چھپانے کے چکرمیں آدھے گھنٹے سے خوار ہو رہے ہیں اور پہیلیاں بُجھوا رہے ہیں وہ راز تو گلی کی نکڑ کے دکاندار کو بھی معلوم ہے۔

یہ سارا قصہ سن کرمجھے نوے کی دہائی کی ہالی وڈ کی فلم یاد آگئی جس میں ایک ایجنٹ کی تلاش میں جانے والی خصوصی ٹیم کواس کی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے اس کاپتہ لگانے کے لئے نجانے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں اور آخرمیں انہیں پتہ چلتاہے کہ علاقے کا ہرشخص اسے خفیہ ایجنٹ کے طور پر ہی جانتا ہے۔ ایسی ہی ایک حکایت روس کے بارے میں بھی عام ہے اور اسے سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کا کلیدی سبب مانا جاتا ہے۔

پاکستان میں جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پر ویزمشرف کی جانب سے سیاست میں اعلانیہ اور براہ راست مداخلت کی گئی، تخت کا تختہ کیا گیا، سیاسی نظام اور جمہوریت کے ساتھ خوب رنگ رلیاں منائی گئیں۔ جنرل اسلم بیگ، جنرل اسد درانی نے سیاست میں بالواسطہ مداخلت کا اعتراف کیا جنرل شجاع پاشا، جنرل ظہیر الاسلام پر بھی انگلیاں اٹھیں جنرل فیض حمید کو دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کاذمہ دارٹھہرایا جاتا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک سٹنگ جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے نام لے کر بتایا کہ مرضی کے فیصلوں کے لئے خفیہ ایجنسی کے اہلکاران پر دباؤ ڈال رہے ہیں پھران کے نام بھی بتائے۔

پیپلزپارٹی حکومت کے خلاف میموگیٹ سکینڈل، نوازشریف حکومت کے خلاف ڈان لیکس جیسی تحقیقات کی شروعات، پاناماسکینڈل اور منصب سے ہٹائے جانے کے واقعات میں کئی پردہ نشینوں کے نام آئے۔ جے ٹی آئی کی تحقیقات، کیس کی سماعت کے دوران خفیہ ایجنسی کے لوگوں کی جج سے خفیہ ملاقاتوں کی ویڈیو اور سرینا کے لفافوں میں لکھے لکھائے فیصلے کی احتساب عدالت کو فراہمی کی خبریں سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئیں۔ غداری کارڈ کے بعد، توہین مذہب کے کارڈز کھیلے گئے۔ منظم جتھے وفاقی دارلحکومت پر حملہ آورہوئے۔ چشم فلک نے دیکھا کہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے دعویداروں نے مصالحت کی ذمہ داری کس احسن طریقے سے نبھائی اور وہ لوگ جو وفاقی حکومت پر حملہ آورہونے آئے تھے انہیں ہزارہزارکے لفافے دے کر عزت واحترام سے واپس بھیجا۔

معذرت میں بھٹک گیا بات ہورہی تھی خلائی مخلوق کی اور میں کہہ رہا تھا کہ خلائی مخلوق کی ہیئت، عناصر ترکیبی، طرز زندگی، اعمال، افعال، رویوں اور تعیش کے بارے میں جاننا یا جاننے کا تجسس رکھنا مشکل بلکہ جان جوکھوں کا کام ہے اس لیے لوگ دیکھتے اور جانتے بوجھتے بھی اس سے دورہی رہتے ہیں۔

صاحب مضمون : روزنامہ جنگ سے 2003 میں کریئرکا آغاز کیا اور 2008 تک صحافت کے طالب علم کی حیثیت سے اس ادارے سے بہت کچھ سیکھا۔ 2008 میں سماء ٹی وی کے آغاز کے ساتھ ادارے کو جوائن کیا جہاں براڈکاسٹنگ کی الف ب سیکھنے کے مواقع ملے۔ آج بھی صحافت کا طالبعلم ہوں اور مزید سیکھنے کا خواہاں ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).